کے الیکٹرک، آئی پی پیز کے لیے 133 ارب روپے کی منظوری

کراچی کے شہریوں کی جانب سے پانچ سال قبل استعمال کی گئی بجلی کے سلسلے میں واجب الادا 90ارب روپے کی رقم کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے حالیہ سہ ماہی کے ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں جولائی، اگست اور ستمبر کے لیے 57 پیسے فی یونٹ چارج کرنے کی منظوری دے دی۔رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مجموعی طور پر 177 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس کی بھی منظوری دی۔منظور کی گئی گرانٹس میں ٹیرف ڈیفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ایس) کے لیے کے الیکٹرک کو 37 ارب روپے اور 2002 کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے گئے 11 خود مختار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو 96 ارب روپے کی ادائیگی بھی شامل ہے۔

آئی پی پیز کے لیے منظور کی گئی رقم 2021 کے از سر نو مذاکرات کے تحت ہونے والے معاہدوں کے مطابق طے شدہ ادائیگیوں کی دوسری قسط کے طور پر جاری کی جائے گی۔

جاری کردہ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ای سی سی نے کے الیکٹرک- کے لیے 0.571 روپے فی یونٹ اضافے کی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ٹیرف ریشنلائزیشن کی منظوری دے دی ہے، منظوری کے تحت ٹیرف میں یہ اضافہ جولائی تا ستمبر 2021 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہے۔

اس کے علاوہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے کہا گیا کہ وہ اکتوبر-دسمبر 2021 کے لیے ٹیرف کا نظرثانی شدہ شیڈول(اسی او ٹی) جاری کرے یا اسے ٹیرف ریشنلائزیشن میں شامل کرنے کے بعد جنوری تا مارچ سہ ماہی کے لیے ٹیرف کے تازہ ترین شیڈول میں شامل کرے۔

آئی پی پیز کے لیے منظور کی گئی رقم 2021 کے از سر نو مذاکرات کے تحت ہونے والے معاہدوں کے مطابق طے شدہ ادائیگیوں کی دوسری قسط کے طور پر جاری کی جائے گی۔

جاری کردہ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ای سی سی نے کے الیکٹرک- کے لیے 0.571 روپے فی یونٹ اضافے کی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ٹیرف ریشنلائزیشن کی منظوری دے دی ہے، منظوری کے تحت ٹیرف میں یہ اضافہ جولائی تا ستمبر 2021 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہے۔

اس کے علاوہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے کہا گیا کہ وہ اکتوبر-دسمبر 2021 کے لیے ٹیرف کا نظرثانی شدہ شیڈول(اسی او ٹی) جاری کرے یا اسے ٹیرف ریشنلائزیشن میں شامل کرنے کے بعد جنوری تا مارچ سہ ماہی کے لیے ٹیرف کے تازہ ترین شیڈول میں شامل کرے۔

پی ٹی آئی حکومت اس معاملے میں فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تھی جب کہ نیپرا نے 24 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ بعد کی 3 سہ ماہیوں یعنی اپریل تا دسمبر 2022 کے لیے بھی ٹیرف کا تعین کردیا تھا جس کے بعد مجموعی بقایا رقم 113 ارب روپے ہو گئی۔

ایک طرح کی جوابی کارروائی کے طور پر کے ای نے نیشنل گرڈ کو ادائیگیاں روک دیں تھیں جس کے ساتھ اس کا پاور سپلائی کا معاہدہ 2015 میں ختم ہو گیا تھا لیکن اس کو بجلی کی سپلائی جاری رہی جب کہ اسی دوران نیشنل گرڈ کو کے ای کی جانب سے واجبات 390 ارب روپے سے زیادہ ہو گئے۔

پاور ڈویژن نے تجویز دی کہ کے الیکٹرک کے صارفین سے ایک روپیہ پیسے فی یونٹ سرچارج کے ذریعے 12 ماہ میں 24 ارب روپے وصول کیے جائیں، کیونکہ اسی طرح تقسیم کار کمپنیوں کے صارفین سے اتنی ہی رقم وصول کی گئی تھی اور 90 ارب روپے کی پرانی رقم کو وفاق کی جانب سے سبسڈی کے طور پر جذب کیا جائے۔

پاور ڈویژن نے تجویز کیا کہ تقریباً 37 ارب روپے کے ای کے لیے سبسڈی کے طور پر سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کو جاری کیے جائیں، سی پی پی اے نیشنل گرڈ کمپنی کا وفاقی ایجنٹ ہے۔

ای سی سی نے ان ایڈجسٹمنٹ کے پورے معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، 2021-22 میں پیشگی سبسڈی کے طور پر 36 ارب 95 کروڑ روپے کے دستیاب بجٹ کو سی پی پی اے کو جاری کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔

ای سی سی نے سابق واپڈا ڈسکوز میں سرمایہ کاری کے طور پر رواں مالی سال میں 17 ارب روپے جاری کرنے کی بھی منظوری دی۔

ای سی سی نے 2002 کی پاور پالیسی کے تحت قائم کردہ 11 آئی پی پیز کو 96 ارب روپے کی ادائیگی کی بھی منظوری دی۔

ان آئی پی پیز اور حکومت نے ریٹائرڈ جسٹس مقبول باقر کی قیادت میں ثالثی پر اتفاق کیا تھا، پی ٹی آئی حکومت نے اس سال جنوری میں ان 11 آئی پی پیز کو 40 فیصد کی پہلی قسط کی منظوری دی تھی جس میں منشا گروپ کے نشاط چونیاں بھی شامل ہیں جن پر زائد منافع حاصل کرنے کا الزام ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ نشاط پر 83 لاکھ روپے سے زائد منافع کا الزام تھا اور اس نے حکومت کو یہ رقم کسی فیصلے تک روکنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی، اس لیے اسے 8 ارب 77 کروڑ روپے تک ادا کیا جائیں۔

ای سی سی نے مجموعی طور پر 96 ارب روپے کی ادائیگی کی منظوری دے دی، جس میں ان 11 آئی پی پیز کو دوسری قسط (60 فیصد) کے طور پر 78 ارب روپے، نشاط کو 8 ارب 77 کروڑ روپے اور ٹی این بی لبرٹی پاور کو 8 ارب 7 کروڑ روپے شامل ہیں، جنہیں گزشتہ سال 14 ارب 5 کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں