بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کے سابق چیئرمین اور عمران خان کی کابینہ کے رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، المعروف ایم بی ایس نے پاکستان میں اس شرط پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسے سیاست اور بیوروکریسی میں موجود اشرافیہ سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ہارون شریف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2019 میں ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد نے انہیں الگ لے گئے اور کہا کہ سعودی حکومت پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے سعودی ولی عہد کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لیکن جب تک آپ اس سرمایہ کاری کو سیاست اور بیوروکریسی سے تحفظ نہیں دیں گے ایسا نہیں ہو سکتا‘۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران بحیثیت بی او آئی چیئرمین ذمے داریاں ادا کرنے والے ہارون شریف نے یہ گفتگو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’ان لاکنگ پاکستانز اکنامک پوٹینشل‘ کے موضوع پر ہونے والے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کی۔
2019 کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے پاکستان کی مشکلات کا شکار معیشت کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
اس منصوبے کے مطابق سعودی حکومت کی جانب پاکستان میں ایک آئل ریفائنری سمیت مختلف انفرا اسٹرکچر قائم کیے جانے تھے لیکن سرمایہ کاری عمل میں اب تک نہیں آئی۔
ہارون شریف نے واضح اور نپے تلے الفاظ میں اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح سے ملک کے ان مشکل معاشی حالت میں صورتحال کو بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ معیشت اس وقت ترقی کرتی ہے جب کہ جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا تناسب بڑھتا ہے، یہ عنصر پاکستان کے معاملے میں نظر نہیں آتا۔
انہوں نے قطر، یو اے ای ، قازقستان اور چین کے سیکڑوں ارب ڈالر مالیت کے خودمختار فنڈز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معیشت کا مستقبل یورپ سے زیادہ ایشیا میں روشن ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کو طویل مدتی مستحکم پالیسی پلان آف ایکشن کی ضرورت ہے، اس پلان آف ایکشن س میں سیاسی حالات و معاملات کی وجہ سے کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔
وفاقی وزیر مزید نے کہا کہ ملک میں کوئی بھی سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں لائی جا سکتی جب تک ہم اپنے ملک کے اندرونی معاملات کو ٹھیک نہ کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حمایت کے ساتھ بننے والی مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔
احسن اقبال نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاک۔چین اقتصادی راہداری آج تک ٹیک آف نہیں کر سکی جس کی مبینہ وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام، امن و امان کی غیر اطمینان بخش صورتحال اور طاقت کے مختلف ایوانوں کے درمیان اعتماد کا بحران ہے۔
وزیر منصوبہ بندی نےاپنی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے 23-2022 کے مالی بجٹ کو ڈراؤنا خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی معاملات کو چلانے کے ساتھ ترقیاتی اخراجات کے لیے بمشکل ہی کچھ فنڈز تھے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی قرض لینے کی ضرورت ہے اور یہ صورتحال ملکی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بمشکل 15 ارب ڈالر ہے جب کہ مسابقتی معیشتوں کے لیے ایشیائی مارکیٹوں میں پیسے کی ریل پیل ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان چوہان کا کہنا تھا کہ صرف 10 فیصد ٹیکس وصولی کے ساتھ مالی استحکام پاکستان کے لیے ہمیشہ چیلنج ہی رہے گا۔
اس تقریب کے دوران لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) سے تعلق رکھنے والی ماہا رحمٰن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی جنوبی ایشیا میں فی کس سب سے زیادہ جی ڈی پی رکھنے والا ملک پاکستان 4 دہائیوں کے دوران اب اس درجہ بندی میں سب سے نیچے چلا گیا ہے۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے لمز کے ایڈجنکٹ پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق نے پاکستان میں ٹیکس سسٹم میں موجود خامیوں اور غلطیوں نشاندہی کی۔
علاوہ ازیں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلیری نے ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے اکنامک سیکیورٹی کونسل کی تشکیل پر زور دیا۔