لاہور کی خصوصی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی توثیق کر دی ہے۔
عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔اسپیشل کورٹ سینٹرل نے منی لانڈرنگ مقدمے میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے دیگر ملزمان کی عبوری ضمانتوں کی بھی توثیق کر دی۔
عدالت کی جانب سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو 10، 10 لاکھ روپے جبکہ دیگر ملزمان کو 2، 2 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔
شہبازشریف، حمزہ شہباز کی عبوری ضمانتوں پر فیصلہ محفوظ
قبل ازیں لاہور کی خصوصی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عدالت نے مقدمے کے دیگر ملزمان کی جانب سے دائر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر بھی فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ہم نے یا سابق تفتیشی افسر نے کوئی تازہ رپورٹ نہیں لکھی کہ ملزمان کی گرفتاری مطلوب ہے۔
یہ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ کے بیان سے متصادم ہے جنہوں نے گزشتہ سماعت کے دوران عدالت میں تصدیق کی تھی کہ ایف آئی اے ان رہنماؤں کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔
خصوصی عدالت (سنٹرل ون) کے پریزائیڈنگ جج اعجاز حسن اعوان نے گزشتہ سماعت کے دوران کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں (آج) 11 جون تک توسیع کی تھی، دونوں رہنما آج بھی عدالت میں پیش ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ وارنٹ پر عملدرآمد نہیں ہوسکا کیونکہ سلیمان شہباز اپنے پتے پر موجود نہیں تھے اور بیرون ملک چلے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ ایف آئی اے نے ملک مقصود کی موت کی تصدیق کے لیے متعلقہ ادارے کو خط بھی لکھے۔
سماعت کے دوران یہ بات ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے بھی کہی جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے نے ملک مقصود کی موت کے حوالے سے انٹرپول کو خط لکھا ہے۔
بعد ازاں فاضل جج نے ایف آئی اے کو تصدیق شدہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، جج نے اپنے اسٹاف سے اخبار بھی منگوایا اور ملک مقصود کی وفات سے متعلق اخبار کٹنگ کو فائل کا حصہ بنایا گیا۔
شہباز شریف کی عدالت میں گفتگو
وزیر اعظم شہباز نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میرا حق میں اپنی ضمانت بارے عدالت کو حقائق بتاوں، ایف آئی اے کا کیس بھی وہی کیس ہے جو نیب نے میرے خلاف بنا رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خلاف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر مل سے متعلق کیسز ہیں، جج نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ کیا ان کاروباروں میں ان کے کوئی شیئرز ہیں؟ وزیر اعظم نے جواب دیا ’میرا کوئی شئیر نہیں ہے‘۔
شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ ’آشیانہ کیس میں میرے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا، میرے کیسز میں لاہور ہائیکورٹ مفصل فیصلہ دے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب میرے خلاف سپریم کورٹ گیا، اس وقت کے چیف جسٹس نے نیب کی میری ضمانت منسوخی کی درخواست میں کہا کہ کرپشن کے ثبوت کدھر ہیں؟ نیب وہاں سے بھی دم دبا کے بھاگ گیا ۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب کے عقوبت خانے میں تھا، وہاں سے جیل گیا تو ایف آئی اے والے 2 بار میرے پاس آئے، ایف آئی اے سے کہا کہ میں اپنے وکیل سے مشورہ کیے بغیر جواب نہیں دے سکتا، میں نے زبانی ایف آئی اے کو تمام حقائق بتا دیے تھے، میرے کیسز کا میرٹ پر فیصلہ ہوا اور میں باہر آیا۔
انہوں نے کہا کہ عزت ہی انسان کا اثاثہ ہوتا ہے، میرے خلاف انتہائی سنگین الزام لگائے گئے، میں نے درجنوں پیشیاں بھگتیں، ایف آئی اے کی سرزنش ہوئی کہ چالان کیوں پیش نہیں کیا جا رہا، مجھے لگتا ہے کہ ایف آئی اے والے کوئی گرفتاری کا راستہ نکال رہے تھے اس لیے چالان میں تاخیر کی گئی۔
شہباز شریف نے لکہا کہ میں شوگر ملز کا ڈائریکٹر ہوں، نہ مالک ہوں اور نہ ہی شئیر ہولڈر ہوں، میں نے منی لانڈرنگ کرنی ہوتی یا کرپشن کرنی ہوتی تو میں جو فائدہ جائز طریقے سے لے سکتا تھا وہ لے لیتا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے منی لانڈرنگ کر کے منہ کالا کرانا ہوتا تو خاندان کی شوگر ملوں کو نقصان کیوں پہنچاتا، میں نے شوگر ملز کو سبسڈی نہیں دی تاکہ قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے، میں نے یتیموں اور بیواؤں کے خزانے کو انہی پر استعمال کیا، میں نے پنجاب کے خزانے کی حفاظت کی اسے ضائع نہیں کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ میرے بچوں نے ایتھنول کی مل لگائی میں نے اس پر ٹیکس لگا دیا، مل والوں نے بڑا شور مچایا کہ یہ ٹیکس لگا دیا گیا یہ نہیں ہونا چاہیے، پی ٹی آئی کی حکومت نے ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
شہباز شریف نے کہا شوگر کاروبار سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے، خدا کو حاظر ناظر جان کر کہتا ہوں ایف آئی اے نے جتنے بھی فیکٹس بتائے ہیں جھوٹے ہیں، میں نے 12-2011 میں بے روزگار غریب بچے بچیوں کو بولان گاڑیاں دیں، 2015 میں ہم نے 50 ہزار گاڑیوں کا منصوبہ شروع کیا، ہم نے گاڑی کی کمپنی سے ڈھائی ارب روپے رعایت کرائی اور قومی خزانے کو فائدہ دیا۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ قیامت آ جائے گی لیکن ایف آئی اے ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکتا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دلائل
دریں اثنا ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان میں سے ایک گلزار نے پارٹی فنڈز کے عوض 2 کروڑ روپے جمع کرائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی شخصیت ہیں. ایسی سیاسی فگرز کے خلاف جب کیسیز کھلتے ہیں تو اسی طرح کی شہادت اکٹھی ہوتی ہے۔
فاروق باجوہ نے مزید کہا کہ عدالت نے استفسار کیا تھا کہ کہ کیا ہمارے پاس براہ راست شہادت ہے، 2013 اور 2015 کے 2 چیک تھے، وہ گلزار کے اکاونٹ میں جمع ہویے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ چالان آ چکا ہو اور عبوری ضمانت بھی چل رہی ہو، ایف آئی اے نے جتنی بھی شہادتیں اکٹھی کیں اس میں بد نیتی نہیں تھی، ہم نے ممکنہ حد تک اس کیس میں شہادتیں اکٹھی کیں، مسرور انور اور عثمان شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
بعد ازاں عدالت نے شہبازشریف، حمزہ شہباز اور دیگر تمام ملزمان کی عبوری ضمانتوں کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
کیس کا پس منظر
ایف آئی اے نے دسمبر 2021 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف چینی اسکینڈل کیس میں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا تھا۔
عدالت میں جمع کرائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق ‘تفتیشی ٹیم نے شہباز شریف کے خاندان کے 28 بے نامی اکاؤنٹس کا پتا لگایا ہے جن کے ذریعےسال 2008 سے 2018 کے دوران 16 ارب 30 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی، رپورٹ کے لیے ایف آئی اے نے 17 ہزار کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کی جانچ کی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ رقم ‘خفیہ اکاؤنٹس’ میں رکھی گئی تھی اور ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو دی گئی تھی۔
ایف آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ اس رقم (16 ارب روپے) کا (شہباز خاندان کے) چینی کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا اور شہباز شریف کی جانب سے کم اجرت والے ملازمین کے اکاؤنٹس سے حاصل کی گئی رقم ہنڈی/حوالہ نیٹ ورکس کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل کی گئی، جو بالآخر اس کے خاندان کے افراد کے ہی استعمال میں آئی۔
شریف گروپ کے 11 کم تنخواہ والے ملازمین جنہوں نے اصل ملزم کی جانب سے منی لانڈرنگ کی اور رقم کو ‘معلق اور قبضے میں رکھا’، وہ منی لانڈرنگ میں سہولت کاری کے مجرم قرار پائے ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق شریف گروپ کے تین دیگر شریک ملزمان نے بھی منی لانڈرنگ میں فعال طور پر سہولت فراہم کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ رمضان شوگر ملز کا چپڑاسی مقصود ‘چپڑاسی’ اس مقدمے میں اشتہاری مجرمان میں سے ایک تھا، ملزم نے اپنے بینک اکاؤنٹ میں 3 ارب روپے وصول کیے تھے۔
ایف آئی اے کے چالان کی کاپی کے مطابق مقصود رمضان شوگر ملز، لاہور میں ٹی بوائے یا پیون کے طور پر کام کرتے تھے، سال 2017 میں ان کی آخری تنخواہ 25 ہزار روپے تھی اور پھر ‘وہ 14 مارچ 2018 کو متحدہ عرب امارات فرار ہوگئے تھے’۔
ایف آئی اے نے اپنے چالان میں کہا کہ ان کے نام پر کم از کم 7 بے نامی اکاؤنٹس کھولے گئے جہاں سے 29 کروڑ 66 لاکھ روپے کی رقم منتقل کی گئی، مقصود احمد لاہور کے رہائشی تھے اور یہ ناممکن ہے کہ وہ دور افتادہ علاقے چنیوٹ میں کاروباری اکاؤنٹس چلا سکیں’۔
ایف آئی اے نے نشاندہی کی تھی کہ منی لانڈرنگ کیس کے ‘تین اہم سہولت کار’ یعنی سلیمان شہباز، سید محمد طاہر نقوی اور ملک مقصود احمد بیرون ملک ‘مفرور’ ہو گئے تھے اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اکثر شریف خاندان پر اپنی شوگر ملز کے ملازمین کے ذریعے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں اور خاص طور پر مقصود چپڑاسی کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف پر مبینہ طور پر فیکٹری ورکرز کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
البتہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔