عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر وبائی ممالک میں منکی پاکس کے پھیلنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے جب کہ ایسے ممالک میں اب ایک ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیلتھ ایجنسی وائرس کے خلاف بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی سفارش نہیں کر رہی ہے جب کہ اس وبا سے اب تک کسی شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ ممالک جہاں منکی پاکس کی وبا نہیں پائی جاتی وہاں بھی اس کے پھیلنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔
زونوٹک بیماری 9 افریقی ممالک میں انسانوں میں وبا کی صورت میں پائی جاتی ہے لیکن گزشتہ مہینے کئی دیگر ریاستوں میں اس کے پھیلنے کی اطلاع ملی، ان ممالک میں زیادہ تر یورپ اور خاص طور پر برطانیہ، اسپین اور پرتگال شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے مزید بتایا کہ منکی پاکس کے ایک ہزار سے زیادہ تصدیق شدہ کیسز اب 29 ممالک سے ڈبلیو ایچ او کو رپورٹ کیے گئے ہیں جہاں یہ بیماری نہیں پائی جاتی۔
ابھی تک ان ممالک میں وائرس سے کسی موت کی اطلاع نہیں ملی، سب نہیں مگر زیادہ تر کیسز ان مردوں کے درمیان رپورٹ کیے گئے ہیں جو مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھتے ہیں۔
کچھ ممالک میں اب بظاہر کمیونٹی ٹرانسمیشن کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں خواتین کے کچھ کیسز بھی شامل ہیں۔
مونکی پاکس ایک بہت کم پایا جانے والا وبائی وائرس ہے، یہ انفیکشن انسانوں میں پائے جانےوالے چیچک کے وائرس سے ملتا ہے، اس وبا کی علامات میں بخار ہونا، سر میں درد ہونا اور جلد پر خارش ہونا شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ خاص طور پر اس خطرے کے بارے میں فکر مند ہیں جو وائرس سے حاملہ خواتین اور بچوں سمیت دیگر بیماریوں اور طبی مسائل کے باعث کمزوری کے شکار افراد کو لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر وبائی ممالک میں منکی پاکس کے اچانک اور غیر متوقع طور پر ظاہر ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے سے اس کی منتقلی کا پتا نہیں چل سکا، تاہم، یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کتنے عرصے تک اس کی منتقلی اور پھیلاؤ کا پتا نہیں چل سکا۔
غیر وبائی ممالک میں منکی پاکس کے ایک کیس کا سامنے آنا وبا سمجھا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ اگرچہ یہ واضح طور پر باعث تشویش تھا کہ یہ وائرس افریقہ میں کئی دہائیوں سے موجود تھا اور لوگوں کو ہلاک کر رہا تھا جب کہ اس سال اب تک ایک ہزار 400 سے زیادہ مشتبہ کیسز اور 66 اموات ہو چکی ہیں۔
ویکسینز
ان چند مقامات پر جہاں ویکسین دستیاب ہے، وہاں اس کا استعمال ان لوگوں کی حفاظت کے لیے کیا جا رہا ہے جنہیں زیادہ خطرہ ہے جیسے کہ ہیلتھ کیئر ورکرز۔
انہوں نے مزید کہا کہ وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ویکسینیشن 4 روز کے اندر دینی چاہیے جب کہ
متاثرہ شخص کے قریبی رابطے میں رہنے والے لوگوں جیسے کہ جنسی ساتھی یا گھر کے افراد کے لیے ویکسین پر غور کیا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے مزید کہا کہ ڈبلیو ایچ او آنے والے دنوں میں طبی دیکھ بھال، انفیکشن سے بچاؤ، کنٹرول، ویکسینیشن اور کمیونٹی کے تحفظ کے بارے میں ہدایات جاری کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ وائرس کی علامات والے افراد کو گھر میں الگ تھلگ رہنا چاہئے اور ہیلتھ ورکر سے مشورہ کرنا چاہئے جب کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگوں کو بھی قریبی رابطے سے گریز کرنا چاہئے۔