پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلیں

کابینہ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نور عالم خان نے آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ تمام معاہدوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود بھی ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔

نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی اے اور نیپرا کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے دوران چیئرمین پی اے سی نے انکشاف کیا کہ کئی آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود ادائیگیاں جاری ہیں۔

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ جب عوام بجلی لے نہیں رہے تو آئی پی پیز کو پیسے کیوں دیں؟ جس کے جواب میں چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کیپسٹی پیمنٹ چارجز کے معاہدے کرتی ہے۔

رکن کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے استفسار کیا کہ اس وقت ملک میں کتنے فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے؟

چیئرمین نیپرا نے جواب دیا کہ ڈسکوز کو 13 فیصد بجلی لائن لاسز کی رعایت ہے مگر نقصانات 17 فیصد ہیں۔

توصیف ایچ فاروقی کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ بجلی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی میں چوری ہو رہی ہے، کیسکو میں 65 فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی صارفین کو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دینے سے نقصان ہو رہا ہے، اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگاواٹ ہے۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اگر 41 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

چیئرمین نیپرا نے جواب دیا کہ تیل کی کمی اور قیمت میں اضافے کی وجہ سے بجلی مکمل صلاحیت پر پیدا نہیں ہو رہی۔

اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ لگتا ہے چیئرمین نیپرا کی بجلی مفت ہے، جس پر چیئرمین نیپرا نے کہا کہ میری بجلی مفت نہیں، میرا خود 68 ہزار روپے بل آیا ہے جو تنخواہ کے اعتبار سے زیادہ آیا ہے۔

چیئرمین پی اے سی کے استفسار پر چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 7 لاکھ اور کچھ ہزار روپے ہے، نور عالم خان کے استفسار پر چیئرمین اوگرا مسرور خان نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 11 لاکھ روپے ہے۔

اجلاس کے دوران چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بتایا کہ پی ٹی اے کے خلاف مختلف موبائل و آئی ٹی کمپنیوں کے 345 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جبکہ اٹارنی جنرل سے بار بار عدالتوں میں مقدمات کے جلد فیصلوں میں کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔

پی اے سی نے زیر التوا مقدمات سے متعلق تفصیلات کے لیے اٹارنی جنرل کو اجلاس میں مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔

چیئرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ پی ٹی اے نے جعلی اکاؤنٹس کے معاملے پر کیا کیا، ٹوئٹر، فیس بک سے پاکستان مخالف مواد چلایا جاتا ہے۔

چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس ہم رپورٹ کرتے ہیں، اکاؤنٹس پر ہم دیکھتے ہیں کہ کیا مواد اپ لوڈ کیا گیا ہے، جعلی اکاؤنٹ پر ٹوئٹر تھوڑا زیادہ وقت لیتا ہے اور فیس بک جلدی کارروائی کر دیتا ہے، ہر ماہ 12 سے 13 ہزار رپورٹس مختلف پلیٹ فارمز کو بھیجتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں