وزیر اعظم شہباز شریف نے باضابطہ طور پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو سرکاری عہدیداروں کی بھرتی، تقرر اور تعیناتیوں سمیت ترقیوں سے قبل ان کی اسکریننگ کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے اس فیصلے سے ایک ایسی روایت کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا ہے جو پہلے سے موجود تھی لیکن اسے باقاعدہ طور پر پروٹوکول کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق ’سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 25 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک کے ذریعے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم نے آئی ایس آئی کو تمام سرکاری عہدیداران (آفیسر کیٹیگری) کی تصدیق اور اسکریننگ کے لیے اسپیشل ویٹنگ ایجنسی (ایس وی اے) کا درجہ دے دیا ہے۔
مذکورہ قوانین سول سرونٹ ایکٹ کے سیکشن 25 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک اور ایس آر او 120 کے تحت وزیر اعظم کو سول بیوروکریسی کے لیے قوانین بنانے یا ترمیم کرنےکا اختیار دیتے ہیں۔
آئی ایس آئی کو ایس وی اے کے طور پر نوٹیفائی کرنے کی ہدایت 06 مئی 2022 کو وزیر اعظم آفس سے جاری کی گئی۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری عہدیداروں کو اہم عہدوں پر تعینات کیے جانے سے پہلے آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ان کے بارے میں اپنی رپورٹس بھیجتے ہیں۔
بیوروکریٹس کی ترقی کے وقت رپورٹس خاص طور پر سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کو بھیجی جاتی ہیں، یہ عمل جاری ہے حالانکہ اعلیٰ عدالتوں نے ماضی میں کچھ معاملات میں ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ایسی کوئی قانونی شق نہیں جو سرکاری ملازمین کے لیے ایجنسی کی اسکریننگ کو لازمی قرار دے۔
عہدیدار کے مطابق نوٹیفکیشن کے باوجود آئی بی کی جانب سے معمول کے مطابق رپورٹس بھیجی جاتی رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت نے اب آئی ایس آئی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کو قانونی تحفظ دے دیا ہے اس لیے اب ان کو عدالتوں میں ایک جائز قانونی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سابق سیکریٹری نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ اگرچہ وزیراعظم کے پاس بیوروکریسی کے لیے قوانین بنانے یا ان میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے لیکن بہتر ہوتا کہ اگر سول بیوروکریسی آئی ایس آئی کو جانچ کے عمل کا باضابطہ چارج دینا چاہتی تھی تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ’تقرر، ترقی اور تبادلے (اے پی ٹی) کے قواعد‘ میں ترمیم کے لیے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کرتی۔
انہوں نے کہا کہ قواعد میں ترمیم نہ کیے جانے تک محض ایک نوٹیفکیشن آئی ایس آئی کی رپورٹ کو قانونی حیثیت نہیں دے گا اور اسے عدالتی جانچ پڑتال کے دوران ایک جائز دستاویز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
عہدیدار نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ذریعے سرکاری عہدیداروں کے ابتدائی تقرر میں آئی ایس آئی کی جانب سے جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کی بجائے آئی ایس آئی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مسلح افواج سے سول بیوروکریسی میں شامل ہونے والے افسران کی اسکریننگ کرے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیز سے کلیئرنس نہ صرف سرکاری عہدیداروں کی ترقی کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ یہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کی توثیق اور ترقی کے وقت چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان انٹیلی جنس رپورٹس پر غور کرتا ہے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس پیش رفت پر کوئی بات نہیں کی جب کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ترجمان سے اس پر تبصرے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔