وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جو عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمیوں کا جائزہ لے گی اور ان کی روشنی میں مقدمات درج کرائے گی۔
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے بیانات پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے گزشتہ روز پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب عمران خان ایک اور احتجاجی مارچ کی کال دیں گے تو وہ صوبے کی ’فورس‘ استعمال کریں گے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں خدشہ تھا کہ ’خونریزی‘ ہونے والی ہے کیونکہ ان کی پارٹی کے کچھ کارکن بھی مسلح تھے اور حکام کی جانب سے کئی گھنٹوں سے جاری گولہ باری کے خلاف جوابی کارروائی کر سکتے تھے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان کے مجرمانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور اس کی تکمیل کے لیے تمام سرکاری وسائل کو بروئے کار لایا گیا اور پولیس کے مسلح جوانوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی حکم کے تحت کرمنل گینگ لشکر میں شامل کیا گیا۔
عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے علاوہ دیگر محکموں کے وسائل کو بھی بروئے کار لایا گیا جو اس مجرمانہ سیاسی ایجنڈے کو جو قوم کو تقسیم کرنے پر مشتمل ہے اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے پر مشتمل ہے اس کو آگے بڑھانے کے لیے وفاق پر حملہ آور ہوئے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ لانگ مارچ میں مسلح لوگ جن کی تعداد چند ہزار تھی وہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی طرف بڑھے اور جب ان کو روکا گیا تو انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی اور مسلح انداز سے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بھی بنایا۔
انہوں نے کہا کہ اس کرمنل گینگ کو روکنے کے لیے جو رکاوٹیں قائم کی گئی تھیں ان کو بھی لانگ مارچ کے شرکا نے ہٹایا اور عدالت عظمیٰ میں دھوکہ دہی اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے ایک حکم نامہ جاری کروایا جس میں ان کو اسلام آباد میں داخل ہونے کے لیے راستہ دینے کا حکم دیا گیا اور اسلام آباد کے ایچ 9 میں جلسہ کرنے کی سہولت فراہم کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا جس پر بھی ہم نے عمل کیا۔
’ان کا مقصد جلسہ کرنا نہیں بلکہ اسلام آباد پر قبضہ کرنا تھا‘
رانا ثنااللہ نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود ہم نے تحریک انصاف کو مقررہ وقت فراہم کیا مگر ان کا مقصد جلسہ کرنا تھا ہی نہیں، ان کا مقصد اسلام آباد میں داخل ہو کر افراتفری اور انارکی پھیلانا اور دارالحکومت پر قبضہ کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے آنے سے قبل 3 سے 4 ہزار لوگ ڈی چوک پر جمع ہوگئے تھے اور ان سب کا تعلق ایک ہی صوبے سے تھا جو کسی سیاسی ایجنڈے پر نہیں بلکہ اس کرمنل گینگ کے فرنٹ کے طور پر ایک دن پہلے ہی آگئے تھے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے تمام عمارات، ہوٹل وغیرہ کی نشاندہی کرلی ہے اور ایک ایک عمارت کے متعلق اپنی رپورٹ میں درج کر رہے ہیں کہ یہ لوگ کہاں کہاں سے آئے تھے اور کہاں پر ٹھہرے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ میں آنے والے لوگوں کو پارلیمنٹ لاجز اور کے پی کے ہاؤس میں بھی ٹھہرایا گیا تھا، سرکاری وسائل کو سیاسی مجرمانہ ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کی اس سے بری صورت کوئی نہیں۔
’تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی توہین کی‘
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے عدالت عظمیٰ کے احکامات کی بھی توہین کی، معزز عدالت نے ہماری توہین عدالت کی درخواست پر سماعت نہیں کی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے اس بیان کے بعد کہ ہمارے ساتھ لوگ مسلح تھے اب اس کے بعد ہماری کسی رپورٹ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اسلام آباد شہر سے کسی نے بھی اس فتنہ اور فسادی مارچ میں شرکت نہیں کی، تمام مسلح لوگوں کو وہاں ٹھہرایا گیا تھا، حکومت ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہے جو پورے ملک سے اس فسادی مارچ کا حصہ نہیں بنے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی جمہوری اور سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک مجرمانہ عمل تھا جو پاکستان پینل کوڈ کے تحت قابل سزا ہے، پولیس کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی تھی صرف آنسو گیس اور ربر کی گولیاں چلائی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا لانگ مارچ اگر ریاست مخالف ہوا تو سختی سے نمٹا جائے گا اور مقدمہ درج کیا جائے گا۔
قبل ازیں وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا، کابینہ نے عوام کو عمران خان کے 25 مئی کے لانگ مارچ کو مسترد کرنے پر مبارکباد دی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ میڈیا اور وزارتِ اطلاعات کی عوام کے لیے مسلح جتھوں اور ان کے اصل چہرے کے حقائق پر مبنی رپورٹنگ قابلِ ستائش ہے۔
وزیر اعظم نے کابینہ کو بتایا کہ انہوں نے وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی تھی کہ کسی بھی اہلکار کے پاس اسلحہ نہیں ہونا چاہے۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اجلاس کو بتایا کہ کسی بھی اہلکار کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔
وفاقی کابینہ نے قانون نافذ کرنے والے تمام اہلکاروں کو اپنے فرائض بخوبی انجام دینے پر خراج تحسین پیش کیا۔
وزیر اعظم نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ سمیت 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔
وزیر داخلہ نے اجلاس کو باور کرایا کہ ریاست مخالف کوئی لانگ مارچ ہوا تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔