سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم نہیں کیا، وزیر قانون

وفاقی زیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فیصل کریم کنڈی اور سینیٹر کامران مرتضٰی کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں کی گئی کل اور آج کی ترامیم میں بیرون ممالک رہنے والے پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا کیونکہ انہوں نے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے ووٹ کا حق نہ ختم کیا گیا ہے اور نہ اس حکومت کی یہ پالیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ 2017 میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف اور جی ڈی اے اور ایک نشست ہونے کے باوجود بھی شیخ رشید کو 2017 کے اصلاحات میں شریک کرکے رکنیت دی گئی کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی رکنیت ہونی چاہیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ 2017 میں انتخابی اصلاحات پر بنی کمیٹی نے 103 سیشن کیے تھے اور ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی تھی جس کے بعد 1976 کا جو انتخابات کا قانون تھا اس کو ختم کرکے 2017 کا انتخابی ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کا ووٹ ڈالنے کے لیے وہاں سے انتظامات کرے گا۔

’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کیلئے پائلٹ پروجیکٹ ناکام ہوا تھا‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ 2018 میں سپریم کورٹ میں بھی یہ مقدمہ چلا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے تکنیکی ماہر منتخب کرنے کا کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اب جو بھی ضمنی انتخابات ہوں اس میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے لیے پائلٹ پروجیکٹ کی کوشش کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں لاہور کے ایک حلقے کا انتخاب کیا گیا اور اس میں بہت زیادہ انتظامات کیے گئے لیکن بدقسمتی سے صرف 550 ووٹ ڈالے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں ضمنی انتخابات کے بعد اس وقت کی حکومت نے کبھی الیکشن کمیشن سے اس بارے میں بات نہیں کی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے لیے پائلٹ منصوبے شروع کریں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت نے یہ بل متعارف کرایا تھا اور کہا تھا کہ آنے والے انتخابات میں انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے اور قومی اسمبلی سے اس بل کو منظور کرایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’آر ٹی ایس‘ بیٹھنے کے بعد جو پاکستانی سیاست اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور بعد میں تحریک انصاف نے رولز اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر بلز کے ساتھ یہ بل بھی منظور کرایا تھا۔

’پارلیمانی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی سفارشات کو مقدم جانا’

وفاقی وزیر نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے تمام اسٹیک ہولڈرز اور روس میں انٹرنیٹ ووٹنگ کا معائنہ کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کی سفارشات کو مقدم جانا کیونکہ 34 ایسی سفارشات تھیں جو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اس بل پر دی تھیں کہ بیرون ممالک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کس طریقے سے دینے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے یہ اعتراض کیا تھا کہ عام انتخابات میں ای وی ایم کے ذریعے ووٹنگ کرانا مشکل ہوگا، اس تناظر میں پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے کثرت رائے کے ساتھ اس بل کو رد کیا اور کہا تھا کہ یہ بات الیکشن کمیشن پر چھوڑی جائے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کتنے حلقوں میں ای وی ایم مشین کا استعمال کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اگر ملک میں ایک سال کے اندر انتخابات کرانا چاہتے ہیں تو وہ الیکٹرانک مشین کے ذریعے یا ای ووٹنگ کے ذریعے ممکن نہیں ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو بجلی اور انٹرنیٹ کے مسائل ہیں اور دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہیں ہیں، اس میں ای ووٹنگ فی الحال ممکن نہیں ہے۔

’قانون میں یہ نہیں کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ختم ہوگی‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی اسمبلی میں اپنے قانون میں یہ نہیں کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ختم ہوگی بلکہ ہم نے یہ معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑا ہے، اگر تحریک انصاف کو سمندر پار پاکستانیوں کا اتنا ہی خیال ہے تو اسمبلی میں آئیں، ہم ترامیم لانے جارہے ہیں جو اصلاحات کمیٹی سے منظور ہونے کی امید ہے۔

نیب پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں احتساب ہونا چاہیے مگر جس طرح سے نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اس پر عدالت نے بھی کہا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ نیب قانون میں ترامیم شریف لوگوں کو وِلن کے طور پر پیش کرنے سے بچانے میں مدد کریں گی کیونکہ نیب شریف لوگوں کو وِلن کے طور پیش کرتا ہے اور پھر ایک لائن میں لکھ کر دیتے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں ملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب نے اگر کسی شخص کو زیادہ بدنام کرنا ہوتا تھا تو وہ اعلامیہ جاری کر دیتا تھا حالانکہ تفتیش رازداری کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس طرح پولیس اور دیگر ادارے کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں