گرفتاریوں کا فیصلہ وزیر اعلیٰ کی نہیں پاکستانی کی حیثیت سے کیا، حمزہ شہباز

وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ گزشتہ دن گرفتاریوں سے متعلق بڑا فیصلہ تھا اور مجھے معلوم تھا کہ تنقید ہوگی مگر میں نے وہ فیصلہ وزیر اعلیٰ کی عینک اتار کر ایک پاکستانی کی حیثیت سے کیا تھا۔

چھاپے کے دوران شہید پولیس اہلکار کی نمازہ جنازہ میں شرکت کے بعد حمزہ شہباز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے حواریوں نے کہا کہ یہ خونی مارچ ہوگا مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ پوچھتا رہتا ہے کہ عدالت رات گئے کیوں کھلی، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ آئین و قانون کا قتل کرنے چلا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی انا یہ تھی کہ اس نے ڈپٹی اسپیکر کو کہا کہ اپنی رولنگ سے آئین کو روند دو، ملک کا تماشہ بنادو مگر میری انا کو بچاؤ۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں صوبے کے عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ کچھ تکالیف آئیں گی مگر ملک کی معیشت سسکیاں لے رہی ہے اس کو بہتر کرنے کے لیے کچھ دن تکلیف برداشت کرنی ہوگی، کل ہی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے ہماری بات ہونی ہے اور عمران خان نے کل ہی کے دن کا اپنے لانگ مارچ کے لیے انتخاب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 52 ارب ڈالر کے منصوبے آرہے تھے اور چینی ہم سے کچھ مانگ نہیں رہے تھے مگر وہ نہیں آسکے۔

حریت رہنما یٰسین ملک کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل کشمیری رہنما کو سزا سنائی جائے گی اور ان کی اہلیہ نے اپنی بچی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان سے کہہ رہی تھی کہ یٰسین ملک عمران خان کے دوست ہیں تو عمران خان 25 کے بجائے 26 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کیوں نہیں کرتے۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ عمران خان نے 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر اس کے برعکس اس نے اپنا گھر ریگولرائز کروا کر غریب لوگوں کے گھر تباہ کردیے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے صوبے کے عوام سے معافی چاہتا ہوں مگر دل پر پتھر رکھ کر ہم نے گرفتاریوں کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایک دن یہ چلا جائے تو شاید عمران خان کے کل کے ناپاک عزائم سے ہم بچ جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پولیس کو بھی کہا ہے کہ پاکستان اور قائد اعظم کا فرمان سامنے رکھ کر آگے چلو، یہ کوئی بنانا ریپبلک نہیں ہے کہ الیکشن کمشنر بھی عمران خان کی مرضی کا ہو اور الیکشن کی تاریخ بھی اس کی مرضی سے دی جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ رات لاہور میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے گھروں پر رات گئے پولیس کی کارروائی کی اطلاعات موصول ہوئی جبکہ شیخ رشید احمد کی رہائش گاہ لال حویلی کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں فیاض الحسن چوہان اور اعجاز خان ججی کے گھروں پر بھی مبینہ طور پر چھاپے مارے گئے۔

علاوہ ازیں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ان کا گھر زیر نگرانی ہے جس کی وجہ سے وہ جہلم روانہ ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مبینہ طور پر پولیس کو پنجاب میں مقیم پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن میں عثمان ڈار، ملک وقار احمد، انجینئر کاشف کھرل، مظہر اقبال گجر اور دیگر شامل ہیں۔

پولیس نے رات گئے ماڈل کالونی میں پی ٹی آئی کے کارکنان کے گھر میں چھاپہ مارا جہاں کارکنان نے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے فائرنگ کی جس میں پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔

وفاقی وزرا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما گزشتہ رات پولیس اہلکار کے قتل پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں