‘عدالت ریاست کی جانب سے اختیارات کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے’

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کورٹ ریاست کی جانب سے اختیارات کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے، اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے، تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف ان کی بیٹی ایمان مزاری کی درخواست پر کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے لیے عدالت میں شیریں مزاری، درخواست گزار ایمان مزاری، فواد چوہدری سمیت دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کے لیے وقت دیا جائے، شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ رات کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی جب ولید اقبال کے گھر پر گئے، اس عدالت کے احکامات پنجاب کی اتھارٹیز کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا گیا ہے، علی وزیر کئی ماہ سے قید میں ہیں، یہ وفاق، صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ کا کام ہے، پہلے یہ سارے کام نہیں کرتے اور پھر اپوزیشن میں آتے ہیں تو کیس عدالت لے آتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے، تمام ادارے کام کریں تو ایسی درخواستیں عدالتوں میں نہ آئیں، سیاسی لڑائیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے حلقے کے عوام کو جوابدہ ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی تو عدالت کیا کرے؟ یہ حکومت کا کام ہے، یہ بھی سوشل میڈیا پر طعنے ہی دیتے ہیں، ماضی میں جو کچھ ہوا، جبری طور پر گمشدہ ہونے والے آج تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہے، اب دیکھیں نا کہ شیریں مزاری کو اس عدالت کے دائرہ اختیار سے غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا، یہ کورٹ یہی فیصلہ دے سکتی ہے نا کہ ان کو غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا، پہلے حکومتی عہدیدار بھی کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر طعنے دیتے رہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے، شیریں مزاری واحد رکن قومی اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ گزشتہ حکومت 20، 20 کلو ہیروئن ڈال کر کیس بناتی رہی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگ عدالت آتے ہیں کہ کمیشن بنایا جائے، یہ اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوگا۔

سماعت کے دوران درخواست گزار ایمان مزاری نے کہا کہ مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں مگر ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پسے ہوئے طبقات کے کیسز عدالت لاتی ہیں، بلوچ طلبہ کی آواز سننے کا کوئی فورم نہیں، عدالت نے آرڈر دیا جسے وفاقی حکومت نے چیلنج کر دیا، جس کے حق میں فیصلہ آجائے دوسرے اس پر برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، سیاسی قیادت کی عدالت عزت کرتی ہے مگر ان کا کام صرف بیانات دینا اور تقاریر کرنا نہیں ہے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کا پرزہ ہے، یہی بنا دیا ہے، پارلیمنٹیرینز کا احترام اس لیے ہے کہ وہ حلقے کے عوام کی آواز ہیں، یہ کورٹ ریاست کی جانب سے اختیار کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے، ہر ریاستی ادارے کو اب متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ پورا ملک بلاک کر دیں گے، حکومت کو نہیں چلنے دیتے، ایک بندہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے گیا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں، حکومت بھی اپوزیشن کے تعاون سے چلتی ہے، یہ آئیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھیں، شیریں مزاری کے خلاف کیس بزدار حکومت میں بنایا گیا تھا، شیریں مزاری کو ان کا فون واپس کر دیا گیا ہے۔

شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پورے پاکستان میں انتقامی کارروائی جاری ہے، اگر شیریں مزاری کی کسٹڈی کی ضرورت ہو تو عدالت کی اجازت لی جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد ایسی کارروائی توہین عدالت ہوگی، اس کورٹ نے اس فیصلے میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں، یہ وفاقی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس آرڈر کو دوبارہ جاکر غور سے پڑھیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے 2 ہفتوں کا وقت دیا جائے، جس پر فیصل چوہدری نے استفسار کیا 2 ہفتے؟ جواب میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہم کورٹ سے استدعا کر رہے ہیں، آپ کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کریں، ہمیں ایک ہفتے کا وقت دے دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے شیریں مزاری کیس کی مزید سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی۔

پس منظر

واضح رہے کہ ہفتہ 21 مئی کو پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا تھا، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے شیریں مزاری کو حراست میں لینے کی تصدیق کی تھی۔

شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا تھا کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’مجھے مت چھوئیں‘۔

اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا تھا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو قانون کے مطابق اسلام آباد کی خواتین پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا، کسی قسم کی مس ہینڈلنگ کی خبریں بے بنیاد ہیں، خواتین پولیس افسران نے محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر گرفتار کیا۔

بعد ازاں اسلام آباد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے شیریں مزاری کو رہا کرکے رات ساڑھے 11 بجے پیش کرنے اور حکومت کو ان کی گرفتاری کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

پولیس نے شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ ‘مجھے گاڑی سے گھسیٹا، کوئی وارنٹ نہیں دکھایا اور کچھ نہیں دکھایا اور گرفتار کیا’۔

گرفتاری کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘یہ مجھے ابھی تک نہیں پتا لیکن یہ مجھے لاہور لے کر جا رہے تھے، میری گرفتاری کے پیچھے مسلم لیگ (ن)، رانا ثنااللہ، شہباز شریف یا پھر خفیہ ادارے ہیں، میرے اوپر جو تشدد کیا گیا ہے، وہ میں عدالت میں بتاؤں گی۔

شیریں مزاری کے خلاف الزامات

پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزری کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا ہے کہ شیریں مزاری نے اپنے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شیریں مزاری نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو ‘جعل سازی’ کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کیا۔

دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا اور لہٰذا ‘یہ کمپنیاں بوگس تھیں’۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی ‘جعلی’ منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں