مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پرامن جلسے کی شرط کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کی اجازت دینے کے دعوے کے باوجود حکومت نے گزشتہ رات گئے پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر کریک ڈاؤن کردیا۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی کارروائی ماڈل ٹاؤن میں ایک اعلیٰ سطح کے پارٹی اجلاس کے بعد سامنے آئی جس کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف نے کی، اجلاس میں وزیراعظم کے بڑے بھائی نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جس میں یہ بھی طے پایا کہ حکومت معزول وزیر اعظم عمران خان کے جلد از جلد انتخابات کے مطالبے پر عمل درآمد نہیں کرے گی۔
البتہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کی تیاریاں کی جائیں، قبل ازیں پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت نے ان لوگوں کی فہرست تیار کر لی ہے جنہیں وہ احتجاج کو روکنے کے لیے گرفتار کرنا چاہتی ہے۔
کریک ڈاؤن
اپوزیشن پارٹی کے خدشات گزشتہ رات درست ثابت ہوئے جب پی ٹی آئی رہنماؤں کو دارالحکومت کی جانب مارچ سے قبل نشانہ بنانے یا گرفتار نہ کیے جانے کی یقین دہانی کے باوجود پولیس نے پارٹی کی کئی اہم شخصیات کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اطلاعات کے مطابق قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد اتوار کے روز 25 مئی (کل) کو اسلام آباد میں ’آزادی مارچ‘کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
لاہور میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے گھر پر رات گئے پولیس کی کارروائی کی اطلاعات ملیں جب کہ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کی رہائش گاہ لال حویلی سمیت فیاض الحسن چوہان اور اعجاز خان ججی کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے۔علاوہ ازیں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ان کے گھر کی نگرانی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر جہلم روانہ ہوگئے ہیں۔ذرائع نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ روز شام کو وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی زیرصدارت وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں پی ٹی آئی کے احتجاجی پلان کو کنٹرول کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا اور وزیراعلیٰ نے پولیس کو کارروائی کی ہدایت کی، تاہم لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر بلال صدیق کامیانہ اس حوالے سے تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
پولیس کی مذکورہ کارروائی وزیر اعظم شہباز شریف کے ترجمان ملک احمد خان کی جانب سے ظاہر کیے گئے عزم کے بالکل برعکس ہے، جنہوں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ لانگ مارچ سے قبل پی ٹی آئی کے کسی کارکن کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی اسی عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اتحادی حکومت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور احتجاج کے حق کا احترام کرتی ہے‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان جب تک سب کچھ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر کریں گے، اسے قبول کیا جائے گا، اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی تو حکومت مظاہرین سے نمٹے گی۔
تاہم پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے رات کو ٹوئٹ کیا کہ پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن وہ گرفتاری سے بچنے میں کامیاب رہے، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کی والدہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس کی بھاری نفری نے ان کے بیٹے کی تلاش کے لیے داخل ہونے سے پہلے ان کے دروازے پر دستک دی تھی۔واقعے کے بعد پنجاب کی سابق وزیر صحت یاسمین راشد نے حماد اظہر کی رہائش گاہ پہنچ کر پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیج میں سابق وزیر صحت پنجاب زمین پر بیٹھے ہوئے دکھائی دیں جبکہ پس منظر میں پولیس کی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دیگر ویڈیوز میں مبینہ طور پر پولیس کو پنجاب میں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جن میں عثمان ڈار، ملک وقار احمد، انجینئر کاشف کھرل، مظہر اقبال گجر اور دیگر شامل ہیں۔
چھاپوں سے مسلم لیگ (ن) کا چہرہ پھر عیاں ہوگیا، عمران خان
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنوں اور قیادت کے گھروں پر چھاپوں سے مسلم لیگ (ن) کا چہرہ پھر عیاں ہوگیا۔
عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پرامن احتجاج تمام شہریوں کا حق ہے، مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آتی ہے اس کی یہ فاشسٹ فطرت ظاہر ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) ، پی پی پی اور جے یو آئی (ف) کے مارچ روکے نہ کریک ڈاون کیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے کارکنوں کے گھروں پر کریک ڈاؤن ان کے ہینڈلرز سے متعلق بھی سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے، میں ان بدمعاشوں اور ان کے ہینڈلرز کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ غیر جمہوری اور فاشسٹ اقدامات معاشی صورتحال کو مزید بگاڑ دیں گے اور ملک کو انارکی کی جانب دھکیل دیں گے۔
نئے انتخابات کا اعلان کرنے کی ڈکٹیشن نہیں لے سکتے، مسلم لیگ (ن) کا فیصلہ
قبل ازیں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، ان کی کزن مریم نواز، وفاقی وزرا احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، خرم دستگیر اور اویس لغاری نے مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح اجلاس میں شرکت کی جوکہ تقریباً 3 گھنٹے تک جاری رہا۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی سربراہ میاں نواز شریف نے کہا کہ ’ہم عمران خان سے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنے کی ڈکٹیشن نہیں لے سکتے، ہم عوام میں جانے سے نہیں ڈرتے لیکن اگر ہم اب ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم عمران خان کے دباؤ کے سامنے جھک رہے ہیں اور کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جو کہ ہمیں نہیں کرنا چاہیے‘۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کی 8 اتحادی جماعتوں نے اب تک حکومت کی باقی ماندہ مدت اگست 2023 تک مکمل کرنے پر اصولی طور پر اتفاق کیا ہے، تاہم حکومتی اتحاد تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے مطابق اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لیے تیار ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ اگر وہ قبل از وقت انتخابات میں لچک دکھاتی ہے تو اسے عمران کے دباؤ کے سامنے جھک جانا سمجھا جائے گا، جس کے لیے پارٹی کم از کم اس مرحلے پر متحمل نہیں ہو سکتی۔
نواز شریف نے واضح کیا کہ ’ہمیں عمران خان کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ لوگوں کے ایک گروپ کو ہر تھوڑے عرصے بعد دارالحکومت لے کر پہنچ جائیں اور اپنی شرائط پر عملدرآمد کا حکم دیں، ہم قبل از وقت انتخابات کے معاملے پر کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے بھی مناسب ہے لیکن عمران خان ہمیں مجبور نہیں کر سکتے۔
اجلاس کے بعد نواز شریف نے ٹوئٹر پر پی ٹی آئی سربراہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ’ عوام کو ان فتنہ پرور شرپسند جتھوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جو پہلے ہی ان پر غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے پہاڑ گرا چکے ہیں، ایسے تخریب کاروں کا قلع قمع کیے بغیر پاکستان اپنی حقیقی منزل نہیں پا سکتا، ہمیں بحثیت قوم ان شرپسندوں کا راستہ روکنا ہو گا‘۔
عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی نے مخلوط حکومت کے لیے فیصلہ کرنا نسبتاً آسان بنا دیا ہے، پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ ’اتحادی جماعتوں کے درمیان بات چیت جاری تھی کہ آیا قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں یا نہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے کسی بھی غیر مقبول فیصلوں کا ذمہ دار اپنے سر لینے سے گریزاں تھی اور اس کی مدد کے لیے بقیہ 15 ماہ کی مدت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی ضمانت کی حمایت چاہتی تھی لیکن پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کرنے میں جلدی کی، جس سے حکومتی اتحاد کے لیے اقتدار میں رہنے اور عمران کے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کرنا آسان ہو گیا‘۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز (جنہوں نے عوامی جلسوں میں اپنی حالیہ تقاریر میں پر زور انداز میں نئے انتخابات کی وکالت کی اور یہاں تک دعویٰ کیا کہ ان کے والد بھی ایسا ہی سوچتے ہیں) اس بات پر متفق ہیں کہ حکومتی اتحاد کو اب عمران خان کے دباؤ کے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا چاہیے اور انہیں شکست دینی چاہیے۔
علاوہ ازیں اجلاس کے شرکا نے حکومتی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے تمام اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے پر بھی اتفاق کیا، نواز شریف نے شہباز شریف کو قومی احتساب بیورو (نیب)کے نئے سربراہ کے تقرر کے لیے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے مشاورت شروع کرنے کی بھی ہدایت کی۔
ملاقات میں آئی ایم ایف سے بات چیت، معیشت کی تنزلی، روپے کی بے لگام گراوٹ، کابینہ کی عدم موجودگی میں پنجاب کو چلانے والے حمزہ شہباز کے مسائل اور الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان صوبائی اسمبلی کو ڈی سیٹ کیے جانے کے معاملے پر بھی بات ہوئی، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے گڑھ پنجاب میں طاقت کو مستحکم کرنے پر زور دیا، صوبے میں وزیراعلیٰ کے لیے ممکنہ رن آف الیکشن میں حمزہ کی پوزیشن پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 173 ووٹوں کے مقابلے میں 172 ووٹوں کے ساتھ کمزور دکھائی دیتی ہے۔