حکومت کا نیکٹا کو بحال کرنے، نیشنل ایکشن پلان کا ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور نیشنل ایکشن پلان کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔

قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایک شخص کی ضد، انا اور تکبر کی وجہ سے نیکٹا کو چار برسوں تک نظر انداز کیا گیا، سابق حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے آج دہشت گردی کے واقعات دوبارہ سر اٹھا رہے ہبں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف دہشت گردی کے حوالے سے 8 اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں، وہ صوبوں اور وفاقی اکائیوں کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ضد، انا اور تکبر کے مسائل نہیں ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مولانا عبدالاکبر چترالی اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ دہشتگردی پاکستان کے اندر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار برسوں میں قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کا کوئی اجلاس طلب نہیں کیا گیا، نیکٹا کو وزیر اعظم چیئر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 2014 میں پہلی سیکیورٹی پالیسی دی تھی، اس کے بعد قومی ایکشن پلان بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تمام صوبوں، پوری قوم، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وفاقی اکائیوں کو شامل کر کے دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی مرتب کی گئی، تاہم گزشتہ چار سالوں میں ایک شخص کی ضد، تکبر اور انا کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا گیا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے پولیو، دہشت گردی اور دیگر اہم معاملات پر صوبوں سے کوئی مشاورت نہیں کی، نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردار کے بارے میں ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تھی، تاہم بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت نے بنائے گئے انفرااسٹرکچر اور مالیاتی اور کوآرڈینیشن کا کام بند کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں پولیو کے چار کیسز سامنے آئے ہیں، سندھ کے وزیر اعلیٰ نے ریکارڈ پر یہ بات کہی ہے کہ جب انہوں نے پولیو کے حوالے سے وزیر اعظم سے بات کی تو انہیں بتایا گیا کہ یہ وقت کا ضیاع ہے۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے آج دہشت گردی کے واقعات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں، حکومت پوری قوم، چاروں صوبوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ یکسو ہو کر دہشت گردی کا قلع قمع کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی پہلا اجلاس انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کیا تھا، نیکٹا کا اجلاس بلانے کے لیے وزیر داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے اور آئندہ ہفتے اس حوالے سے اجلاس ہوگا۔

اپنی تقریر کے اختتام پر انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ عالمی سطح پر مضبوط بیانیہ تیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنا گھر ٹھیک کریں اور ملک میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے۔

دہشت گردانہ حملے

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک دہشت گردی کے حملوں کی زد میں ہے، کراچی میں گزشتہ ہفتوں کے دوران تین بم دھماکے ہو چکے ہیں۔

26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر خودکش دھماکے کے نتیجے میں 3 چینی باشندوں سمیت 4 افراد جاں بحق اور دیگر 4 زخمی ہو گئے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے ترجمان نے تصدیق کی تھی کہ جاں بحق افراد میں سے 3 چینی شہری تھے، ان کی شناخت کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہوانگ گوئپنگ، ڈنگ موپینگ، چین سائی اور ڈرائیور خالد کے نام سے ہوئی۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

کراچی شہر میں دوسرا حملہ 12 مئی کو صدر کے علاقے میں ہوا تھا، دھماکے سے ایک شہری جاں بحق اور 8 افراد زخمی جبکہ متعدد گاڑیاں بھی تباہ ہوگئی تھیں۔

اس دھماکے کی ذمہ داری بی ایل اے کی طرح کالعدم سندھودیش انقلابی آرمی (ایس آر اے) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک پیغام میں قبول کی تھی۔

گزشتہ روز محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈی آئی جی سید خرم نے کہا تھا کہ صدر بم دھماکے میں ملوث دہشت گرد نے ایران میں اپنے سربراہان سے تربیت حاصل کی تھی اور اسے وہاں سے کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ہدایات مل رہی تھیں۔

حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں میں سے تیسرا دھماکا اس ہفتے کے شروع میں کراچی کے علاقے کھارادر میں ایم اے جناح روڈ پر واقع میمن مسجد کے قریب ہوا تھا جس میں ایک خاتون جاں بحق اور 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔

پولیس ان حملوں کی تحقیقات کر رہی ہے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں سیکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔

گزشتہ اتوار کو پشاور کے علاقے سربند میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 2 افراد کو قتل کردیا تھا۔

گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں دھماکے سے پاک فوج کا ایک سپاہی شہید ہوگیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں پاک فوج کا قافلہ دھماکا خیز مواد (آئی ای ڈی) کی زد میں آیا۔

اس سے قبل قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے میرالی قصبے میں لڑکیوں کے امتحانی مرکز پر حملہ آوروں نے دستی بم سے حملہ کیا، تاہم حملے مین کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

گزشتہ دنوں ایک اور واقعے میں بنوں میر علی روڈ پر بکا خیل تھانے کے قریب میرالی ڈگری کالج کے دو اساتذہ کی گاڑی کو بم سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

قبل ازیں 15 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ کے قریب خودکش دھماکے میں پاک فوج کے 3 جوان اور 3 معصوم بچے شہید ہوگئے تھے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ میران شاہ میں پاک فوج کی گاڑی کے قریب خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 3 جوان اور 3 معصوم بچے شہید ہوگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں