‘وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے جیسے سیاسی منصوبے ختم کردیے جائیں گے’

وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت پی ٹی آئی کے دور میں شروع کیے گئے ‘غیر اہم’ اور ‘سیاسی نوعیت کے’ منصوبوں کو ختم کردے گی۔

ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے منصوبے مثلاً وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ شامل ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں کو ختم کر کے جو فنڈز بچائے جائیں گے انہیں ‘قومی اہمیت’ کے منصوبوں کی جانب موڑ دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کا وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ ایک ’سیاسی منصوبہ‘ تھا اور اسے ڈرامہ قرار دیا۔

احسن اقبال نے مزید دعویٰ کیا کہ 23 سے 25 ارب روپے جو اس منصوبے کے لیے مختص کیے گئے تھے ‘کوئی نہیں جانتا کہاں’ خرچ ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘اس قسم کے بے کار منصوبے ختم ہو جائیں گے’۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی افتتاحی تقریر میں وعدہ کیا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنائی جائے گی۔

قومی اسمبلی کے پینل نے گزشتہ سال اکتوبر میں ‘یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی بل 2020’ کی منظوری دی تھی اور اس منصوبے پر کام 72 ماہ میں مکمل ہونا تھا تاہم بعد میں سینیٹ کے ایک پینل نے اس بل کو مسترد کر دیا تھا۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ مرحوم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے گزشتہ سال اپنی وفات سے قبل انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک فزیبلٹی رپورٹ بھیجی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں نے ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ایک پراجیکٹ شروع کرے، جسے ہم فوری طور پر منظور کر لیں گے اور جولائی میں اس پر کام شروع کر دیں گے، یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے منسوب ہو گی۔’

‘حکومت مشکل راستے پر چل رہی ہے’

موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے جس میں مسلم لیگ (ن) سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ معیشت کو درست کرنے کے لیے سخت فیصلے کرے گی، احسن اقبال نے کہا کہ ‘آخری سال (عام انتخابات سے قبل) آنے والی حکومت سے یہ توقع رکھنا غیر حقیقی ہے کہ وہ گزشتہ حکومت کے چار سال کے گناہوں کا بوجھ یا اس کی ٹوکری اٹھائے’۔

تاہم انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت پچھلی حکومت کے اقدامات کو درست کرنے کے لیے جتنے اقدامات کر سکتی ہے وہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسے اپنی ذمہ داری کے طور پر ضرور کریں گے لیکن ہمیں پچھلی حکومت کے گناہوں کی سزا نہیں دی جا سکتی اور انہیں مظلوموں کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم کسی ایسے بوجھ کو بھی قبول نہیں کر سکتے جو ان لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا دے جو پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کی وجہ سے تھک چکے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت سخت راستے پر چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اپنی بات چیت میں معیشت اور عوام کے فائدے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔

‘ترقیاتی بجٹ کو کم کردیا گیا’

احسن اقبال نے ترقیاتی محاذ پر گزشتہ حکومت کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس کی ‘ناکامیوں اور خسارے کو کم کرنے میں ناکامی’ کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کے حجم میں کمی واقع ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی ترقیاتی بجٹ یا پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے ابتدائی طور پر رواں مالی سال 22-2021

انہوں نے مزید کہا کہ مختص کیے گئے 480 ارب روپے میں سے تقریباً 42 فیصد صوبائی منصوبوں کے لیے تھے جو کہ’سیاسی رشوت دینے کے لیے ان کے (پی ٹی آئی کے) اپنے لوگوں میں تقسیم کیے گئے تھے۔’

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کو مالی سال 19 کے بجٹ میں 319 ارب روپے دیے گئے تھے اور اب انہیں 460 ارب روپے درکار ہیں لیکن ان کا بجٹ 91 ارب روپے تک کم کر دیا گیا تھا اور دیگر منصوبوں کے لیے کوئی فنڈز نہیں رکھے گئے جو کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ حکومت کو نئے بجٹ میں خسارے کو کم کرنے کے لیے گزشتہ مالی سال کے اہداف کو بحال کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ شرائط سمیت دیگر رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن وہ مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے ترقیاتی بجٹ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومت ترقیاتی بجٹ کو 700 ارب روپے تک بڑھانے کی کوشش کرے گی۔

کے لیے 900 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جو کم کر کے 480 ارب روپے کر دیے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں