عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کی روشنی میں بظاہر ایندھن و بجلی کی سبسڈی ختم کرنے کے حوالے سے ماحول بناتے ہوئے توانائی کے وزرا نے کہا ہے کہ 6 مہینے بعد سخت ترین فیصلے کرنے سے بہتر ہے کہ ابھی سخت فیصلے کر لیے جائیں۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تیل، گیس اور کوئلے کی عالمی قیمتوں میں قلیل تا وسطی مدت کے درمیان یا کم از کم 6 ماہ تک کمی ہونے کی توقع نہیں ہے لہٰذا ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ ابھی مشکل فیصلے کرلیے جائیں بجائے اس کے کہ چھ مہینے بعد مشکل ترین فیصلے کرنے پڑیں۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں خرم دستگیر اور مصدق ملک نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گزشتہ حکومت کو توانائی کے چیلنجز بشمول لوڈشیڈنگ، بڑھتے ہوئے گردشی قرضے، مہنگی توانائی پر قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت کوئلے، ایل این جی اور پاور پلانٹس کے لیے فرنس آئل کا بروقت انتظام نہیں کرسکی، اسی طرح سسٹم کے نقصانات کو کم، کمپنیوں کی کارکردگی میں بہتری یا سپلائرز کو ادائیگی بھی نہیں کرسکی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں غربت کی صورتحال بہت خراب ہوئی ہے اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ہر 6 میں سے 4 خاندان 18 ہزار سے 25 ہزار ماہانہ آمدنی میں زندگی بسر کررہے ہیں، چنانچہ قیادت قیمتوں میں اضافہ کر کے ان پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات کو کافی حد تک حتمی شکل دی جاچکی ہے، پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں کی لاگت حکومت خود برداشت کرے گی، قیمتوں میں اضافہ کرکے غریبوں کو کچلنے کے بجائے ہم اس اضافے کا رخ امیروں کی جانب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان معاملات کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے کر لیا گیا ہے کیونکہ عمران خان نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے اور بجلی کے فی یونٹ میں 5 روپے کی کمی کردی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے رسمی منظوری اور رقم مختص کیے بغیر قیمتوں کو4 ماہ کے لیے منجمد بھی کردیا تھا، جس سے بجٹ پر 700 سے 800 ارب روپے کا اثر پڑے گا جبکہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات 520 ارب روپے ہیں۔
’لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی‘
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا جس طرح وزیراعظم کی ہدایت پر یکم مئی سے 12 مئی تک تعطیلات کے دوران بجلی کی دستیابی کو ممکن بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران عالمی منڈی میں کوئلے کی قیمت 100 ڈالر فی ٹن سے بڑھ کر 360 ڈالر فی ٹن سے زیادہ ہوچکی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت نے کوئلے کی درآمد کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ جمعرات کو بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک گھنٹے سے بڑھا کر 2 گھنٹے کی گئی، جس کی وجہ ایک ہزار 230 میگا واٹ کے حویلی بہادر شاہ پلانٹ کو مینٹیننس کی وجہ سے بند کرنا ہے۔
وزرا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی مالی اور تکینکی بدانتظامی اور نااہلی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب نئی حکومت نے انتظام سنبھالا تو 7 ہزار میگاواٹ سے زائد کی پیداواری صلاحیت والے پاور پلانٹس بند تھے جس میں سے 5 ہزار 850 میگاواٹ کے پاور پلانٹس ایندھن کی قلت جب کہ باقی مرمت میں تاخیر کے باعث بند تھے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے 4 ایل این جی کارگو کا مئی اور جون کے لیے اور قطر سے طویل مدت کے لیے 7 سے 8 کارگو انتظام کرلیا ہے، اس کے علاوہ فرنس آئل کے 5 کارگو کا بھی انتظام کیا گیا ہے تاکہ توانائی بحران پر قابو پایا جاسکے۔
وزرا کا کہنا تھا کہ جون میں زیادہ درجہ حرارت کے باعث زائد طلب کے لیے ایندھن کے ذخائر کو بچانے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گردشی قرضے پر قابو پانے کی وجہ سے 2 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، گردشی قرضہ جون 2018 میں 11 کھرب 20 ارب روپے تھا جو اب 24 کھرب 60 ارب روپے ہوچکا ہے۔
ایل این جی میں مکمل ناکامی
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ ہونے والے پہلے ورچوئل اجلاس میں ان کو یقین دلایا گیا تھا کہ توانائی، پیٹرولیم اور محکمہ خزانہ وسیع البنیاد سیاسی حکومتی کی حمایت کے ساتھ قریبی روابط میں کام کررہے ہیں جو پیچیدہ مالی اور توانائی کے لیے فیصلے کرنے میں نہ صرف باصلاحیت ہیں بلکہ چیلنجز سے نبردآزما ہونے میں سنجیدہ بھی ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سابق وزرا ایسے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جیسے وہ اپوزیشن میں تھے، حالانکہ وہ خود گزشتہ 4 سال حکومت میں رہ کر ایل این جی، فرنس آئل اور کوئلے کا انتظام نہ کرنے پر جواب دہ ہیں۔