پاک امریکا تعلقات کی بحالی: وزیر خارجہ آج امریکا پہنچیں گے

پاکستان اور امریکا کی خارجہ پالیسی سربراہان دونوں ممالک کے تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں میں رواں ہفتے نیویارک میں متعدد ملاقاتیں کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری فوڈ سیکیورٹی سے متعلق امریکا کے زیر اہتمام اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت اور امریکا کی خارجہ پالیسی کے سربراہ سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کے لیے آج امریکا پہنچیں گے۔

یاد رہے کہ انٹونی بلنکن نے بلاول بھٹو زرداری کو 18 مئی کو منعقد ہونے والے ’گلوبل فوڈ سیکیورٹی کال ٹو ایکشن‘ پر وزارتی اجلاس کے لیے مدعو کیا تھا۔

وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ اجلاس علاقائی طور پر متنوع ممالک کے گروپ کو اکٹھا کرے گا جن میں غذائی عدم تحفظ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اور اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہونے والے ممالک شامل ہیں۔

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزرا کو انسانی ضروریات اور زندگیوں کو بچانے اور مستقبل کے لیے لچک پیدا کرنے کے لیے درکار طویل المیعاد ترقیاتی کوششوں پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی امریکا کی صدارت میں ہونے والی بحث میں وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری بھی 19 مئی کو ’بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی و تنازعات اور غذائی تحفظ‘ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کھلی بحث میں شرکت کریں گے۔

تاہم، سفارتی مبصرین یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں عالمی غذائی تحفظ کو لاحق خطرات سے متعلق کانفرنس میں وزیر خارجہ کی شرکت کو تنازع پر غیر جانبداری کے اپنے موقف سے الگ ہونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اقوام متحدہ کے دو اجلاسوں میں پاکستان کے نقطہ نظر اور پالیسی ترجیحات کو اجاگر کریں گے اور تنازعات، غربت اور بھوک سے پاک دنیا کے مستحکم اور مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کریں گے۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک، دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا سیکشن کے سربراہ مائیکل کوگلمین نے کہا کہ پاکستان اب بھی ایک مددگار شراکت دار بن سکتا ہے، انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے اسلام آباد سے کبھی بھی الگ ہونے کا انتخاب نہیں کیا۔

واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کی تعلیم دینے والے پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ نام نہاد سفارتی ’کیبل تنازع‘ نے امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر غیر ضروری دباؤ ڈالا ہے لیکن تعلقات اب بھی دوبارہ بحال کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے کا حوالہ دیا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی ایک حالیہ ’کیبل‘ ان کی حکومت گرانے کی امریکی سازش کی نشاندہی کرتی ہے، تاہم امریکی صدر جو بائیڈن اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومتوں نے اس الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

جیسا کہ مختلف امریکی اسکالرز کی ٹویٹس کی ایک سیریز سے پتا چلتا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد میں موجودہ انتظامی ’سیٹ اپ‘ کو اپنی مدت پوری کرتا ہوا دیکھ رہا ہے اور اسے درپیش کچھ مسائل پر قابو پانے میں مدد کرنا چاہتا ہے۔مائیکل کوگلمین نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ پاکستان کی نئی حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے، اسے وراثت میں معاشی بحران ہے اور بظاہر جس سے نمٹنے کے لیے قوت ارادی اور صلاحیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے یہ حکومت سیاسی طور پر مزید کمزور ہوتی جارہی ہے لیکن کم از کم ابھی قبل از وقت انتخابات نظر نہیں آتے مگر آنے والے سال میں ہونے کا امکان ہے۔

واشنگٹن میں شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے اپنے وزیر خارجہ کو اجلاس میں بھیجنے کے فیصلے کو دلچسپ قرار دیا گیا ہے جہاں روسی حملے کے اثرات کو اجاگر کیا جائے گا، اس فیصلے کو اسلام آباد میں بدلتے ہوئے حالات کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کیا یہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے کافی ہوگا کہ وہ اسلام آباد کو ایک بیل آؤٹ پیکج کی پیشکش کرے تاکہ معاشی تباہی کے خدشے سے بچا جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں