سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ’جنگی اقتصادی کابینہ‘ تشکیل

سری لنکا کے سیاسی رہنماؤں نے کہا ہے کہ اقتصادی بحران کے سبب ہونے والے گزشتہ ہفتے پُرتشدد احتجاج کے بعد تلخ سیاسی منظر نامے میں بہتری کے لیے ایک نئی کابینہ تشکیل دے دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق احتجاجی مظاہرین اب بھی سری لنکن صدر گوٹابایا راجاپکسے کے گھر کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں، فورسز کی جانب سے ملک بھر میں گشت جاری ہے جبکہ عام سری لنکن اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے منتظر ہیں۔

گزشتہ ہفتے رانیل وکرماسنگھے کو سری لنکا کا چھٹا وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔

سری لنکا میں ’متحدہ حکومت‘ کے قیام کے لیے شدید جدوجہد کی گئی جس کے بعد اصرار کیا جارہا ہے کہ ملک کے اعلیٰ عہدے پر براجمان گوٹابایا راجاپکسے بھی اپنے بھائی کی پیروی کریں جنہوں نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔

تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن پارٹی کے دو اہم اراکین نے اپوزیشن کی صفوں کو توڑتے ہوئے ’کابینہ کی معاشی جنگ‘ میں شامل ہونے پر اتفاق کیا ہے۔

اپوزیشن رہنما سجیتھ پریماداسا کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ’معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور قانون کا راستہ بند نہیں کرے گی‘۔

ایک اور اپوزیشن گروپ سری لنکا فریڈم پارٹی (ایس ایل ایف پی) کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا ابتدائی فیصلہ واپس لیتے ہوئے نومنتخب وزیر اعظم کو حمایت کی پیشکش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نئی حکومت کے ہر اس فیصلے کی حمایت کریں گے جو ملک میں معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے لیا جائے گا۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ نئی کابینہ منگل کو ہونے والے پارلیمانی اجلاس سے قبل ہی حلف اٹھا لے گی، یہ اجلاس 73 سالہ رانیل وکرماسنگھے کے وزیر اعظم مقرر ہونے کے بعد پہلی بار منعقد ہوگا۔

نئی کابینہ کے 4 وزرا نے ہفتے کے روز حلف اٹھایا تھا، تمام کا تعلق راجاپکسے کی سری لنکا پوڈو جنا پیرمونا (ایس ایل پی پی) پارٹی سے ہے۔

تاہم ملک میں اب تک کوئی وزیر خزانہ موجود نہیں ہے اور قوی امکان ہے کہ وزیر اعظم، آئی ایم ایف کے ساتھ فوری بیل آؤٹ کے لیے جاری مذاکرات کی قیادت کرنے کے لیے اہم قلمدان اپنے پاس رکھیں گے۔

نئے وزیر اعظم نے بھی بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اتوار کو کولمبو میں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی جس میں ادویات، خوراک، ایندھن اور کھاد کی فراہمی کو درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ ’بات چیت مثبت رہی ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کو آئندہ ہفتے کے لیے ایندھن کی ضرورت کی ادائیگی کے لیے فنڈز کے حصول کے فوری چیلنج کا سامنا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بینکوں میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے حکومت اب ضروری فنڈنگ حاصل کرنے کے دوسرے راستے تلاش کر رہی ہے‘۔

اشیائے خورونوش، ایندھن اور ادویات کی کمی کے ساتھ ساتھ ریکارڈ مہنگائی اور طویل بلیک آؤٹ نے ملک کے ڈھائی کروڑ عوام کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

بدھ مت اکثریت پر مشتمل قوم آزادی کے بعد پہلے بار سامنے آنے والے سخت معاشی بحران کے پیشِ نظر کئی ہفتوں سے صدر گوٹابایا سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

نئے وزیر اعظم کا تقرر اب تک ملک کو معاشی بحران میں دھکیلنے والی حکومت پر عوامی غصہ کم کرنے میں ناکام ہے۔

9 اپریل سے ہزاروں مظاہرین سمندر کے کنارے واقع صدر کے دفتر کے باہر ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاہم آج بدھ مت کے پیروکاری کی چھٹی کے وقت کھولے جانے والے فیول اسٹیشنز کے باہر قطاریں لگی ہوئی ہیں اور لوگ پیٹرول کے منتظر ہیں۔

گزشتہ ہفتے پُرتشدد احتجاج میں 9 افراد ہلاک ہونے کے بعد ملک ایمرجنسی کی حالت میں ہے جہاں فوجی دستے مسلسل گشت کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں