سندھ چیمبر آف ایگریکلچر (ایس سی اے) نے سندھ میں پانی کی سنگین قلت پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے کو ’آفت زدہ‘ قرار دیا جائے۔
کے مطابق ایس سی اے نے پنجاب کی طرف سے جاری کیے گئے پانی کے بہاؤ کے اعداد و شمار کو مسترد کر دیا اور حقیقی اعداد و شمار کا پتا لگانے کے لیے بیراجوں پر ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
میران محمد شاہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ 16 ایکڑ زمین رکھنے والے چھوٹے کاشتکاروں کے قرضے معاف کیے جائیں۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تونسہ اور گدو بیراجوں کے درمیان 13 ہزار کیوسک پانی کی قلت پر انکوائری کرائی جائے۔
اجلاس کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ واپڈا کو تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے سے فی الفور روکا جائے اور سندھ کے فصلوں کو کسی حد تک بچانے کے لیے ایک لاکھ 25 ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ کوٹری بیراج میں پانی کی قلت کو ختم کیا جائے اور 1991 کے پانی معاہدے کے تحت سندھ کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
ایس سی اے اجلاس میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ سندھ کے بیراجوں میں 60 فیصد پانی کی قلت رکارڈ کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین متاثر ہو رہی ہے۔
اجلاس کے شرکا نے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ پر زور دیا کہ چشمہ سے نیچے بہاؤ میں ایک لاکھ کیوسک پانی چھوڑا جائے اور سندھ میں اگلے سال کے خریف فصلوں کی اگائی کے لیے دونوں بیراجوں میں 5 لاکھ ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی ذخیرہ کیا جائے۔
شرکا نے الزام عائد کیا کہ پنجاب میں چشمہ ۔ جہلم لنک کنال کے ذریعے سندھ کا پانی ’چوری‘ کیا جارہا ہے اور پانی کی قلت کا ذمہ دار واپڈا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں خریف کے فصلوں کی اگائی یکم مارچ کو شروع ہوئی اور یہ وہ وقت تھا جب ڈیمز پانی سے خالی رہتے ہیں۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچر نے مزید کہا کہ واپڈا بجلی پیدا کرنے لیے سندھ کے پانی کا استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واپڈا ہمیشہ جنوری اور فروری میں تربیلا ڈیم کو ’ڈید لیول‘ تک پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے سندھ میں پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے اور اس وقت اسکردو میں درجہ حرارت نہیں بڑھتا جس کی وجہ سے برف نہیں پگھلتی۔
اس عرصے کے دوران تقریباً 12 ہزار کیوسک پانی اسکردو سے تربیلا ڈیم میں داخل ہوتا ہے اور دریائے کابل کے بہاؤ کی پیمائش 6 ہزار کیوسک کی جاتی ہے، سسٹم میں تقریباً 18 ہزار سے 20 ہزار کیوسک کا بہاؤ ناکافی ہوتا ہے۔
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ آنے والے سال میں خریف کے فصلوں کی اگائی کے دوران واپڈا کو بجلی کی پیداوار کے لیے پانی کے استعمال سے روکا جائے، ساتھ ہی بتایا گیا کہ اس وقت نارا اور روہڑی کنال روٹیشن پروگرام کے تحت چلائی جارہی ہیں جبکہ سکھر کی رائس اور دادو کنال بند ہیں، شرکا نے روٹیشن پروگرام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
شرکا نے اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کوٹری بیراج میں پانی کی فراہمی کو یقنی بنایا جائے تاکہ چاول کی فصل کاشت کی جائے اور یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پانی چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور بیراجوں پر قابل اور ایماندار افسران کا تقرر کیا جائے تاکہ وہ پانی کی چوری پر نظر رکھیں۔
اجلاس میں وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے 15 مئی سے سندھ سے آم کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے کو سراہا گیا۔
ایس سی اے کے اجلاس میں زاہد بھرگڑی، نبی بخش سہتو، محمد خان سریجو، نثار میمن، میر عبدالکریم تالپر اور دیگر نے شرکت کی۔
ایس یو پی کی پیپلز پارٹی کی ‘مجرمانہ’ خاموشی پر تنقید
دوسری جانب سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) نے سندھ میں پانی کی قلت برقرار رہنے پر مقامی پریس کلب کے سامنے احتجاجی دہرنا دیا۔
احتجاج کی قیادت کرنے والے ایس یو اپی رہنما روشن علی بریڑو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اب وفاقی حکومت کا حصہ ہے مگر اب تک وہ پنجاب سے سندھ کے حصے کا پانی لینے میں ناکام ہے۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے چشمہ ۔ جہلم کنال لنک اور تھل کینال کے ذریعے سندھ کے حصے کا پانی چوری کیا جارہا ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس کی خاموشی سندھ کے لوگوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔
انہوں نے آبپاشی اور پینے کے پانی کی قلت کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پانی کی شدید قلت کے باوجود جاگیرداروں کی زمینوں کو نالیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر پانی ملتا رہا، جبکہ قلت کا بہانہ بنا کر غریب کسانوں اور پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین کی زمینوں کو پانی کی بوند بوند سے محروم رکھا گیا ہے۔
روشن بریڑو نے کہا کہ سندھ کے 70 فیصد چھوٹے شہر اور گاؤں پانی کی فراہمی کے منتظر ہیں، پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی تین دہائیوں سے اقتدار میں ہے مگر ابھی تک صوبے کے لوگوں کو پینے کا پانی تک فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایس یو پی رہنما نے مزید کہا کہ سندھ کے عوام کی ترقی پیپلز پارٹی کی ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، ناقص حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے صوبے میں پانی کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی سطح پر پانی کی تقسیم سے متعلق ہونے والے اجلاسوں میں پیپلز پارٹی سندھ کا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
انہوں نے پانی کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ کا تعلق سندھ سے ہے لیکن وہ سندھ کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کی حیثیت سے پنجاب کا دفاع کر رہے ہیں۔