اسرائیلی پولیس کا الجزیرہ کی مقتول صحافی کے جنازے میں شریک سوگواروں پر حملہ

اسرائیلی پولیس افسران نے الجزیرہ کی صحافی شیریں ابوعاقلہ کی میت کو لے جانے والے فلسطینی سوگواروں پر حملہ کیا جبکہ ہزاروں افراد ان کے قتل پر غم و غصے کا اظہار کرتےہوئے مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے شہر میں ان کی میت لے گئے۔

خبر کے مطابق ابو عاقلہ کے جنازے کے ساتھ درجنوں فلسطینی جن میں سے کچھ نے فلسطینی پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے نعرے لگا رہے تھے کہ ہم اپنی جان اور خون سے شیریں ابوعاقلہ آپ کے خون کا بدلہ ہیں گے، انہوں نے سینٹ جوزف ہسپتال کے دروازوں کی جانب مارچ کیا۔

اسرائیلی پولیس افسران نے بظاہر گاڑی کے ذریعے ان کے جنازے کو لے جانے کے بجائے پیدل آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ہجوم پر لاٹھی چارج کیا اور لاتیں ماریں۔

اس دوران صرف چند منٹوں تک جاری رہنے والے پرتشدد مناظر نے شیریں ابوعاقلہ کے قتل پر فلسطینیوں کے غم و غصے میں اضافہ کیا ہے جس سے تشدد کے اضافے کا کا خطرہ ہے جس میں مارچ کے مہینے میں کافی اضافہ ہوچکا ہے۔

واضح رہے کہ 3 روز قبل اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے قطر کے ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی خاتون صحافی جاں بحق ہوگئ تھیں۔

الجزیرہ میں کام کرنے والی خاتون صحافی شیریں ابوعاقلہ سرائیلی فورسز کی گولی کا نشانہ بنیں، واقعے کی وڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ خاتون صحافی کو سر میں گولی لگی ہے۔

فلسطینی حکام نے ابو عاقلہ کے قتل کو اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں قتل قرار دیا، الجزیرہ نے اپنی خبروں میں یہ بھی کہا ہے کہ انہیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی تھی۔

اسرائیل کی حکومت نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ان کے قتل کی وجہ فلسطینی فائرنگ ہو سکتی ہے لیکن حکام نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات کو مسترد نہیں کر سکتے کہ وہ اسرائیلی گولی سے جاں بحق ہوئیں۔

قطر اور الجزیرہ نے اسرائیلی پولیس کے طرز عمل کی مذمت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا کہ یہ مناظر انتہائی صدمہ دینے والے تھے، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ وہ “تصاویر دیکھ کر بہت دکھی ہیں جب کہ یورپی یونین نے کہا کہ یہ خوفناک تھا۔

پولیس کی مداخلت کے چند منٹ بعد ابو عاقلہ کی میت کو ایک گاڑی میں رکھا گیا جو مقبوضہ بیت المقدس کے اولڈ سٹی میں واقع کیتھیڈرل آف دی اینونسیشن آف دی ورجن کی جانب جارہی تھی جہاں ان کی آخری رسومات کی تقریب پرامن طریقے سے جاری تھی۔

ان کی میت کو قریبی ماؤنٹ صہیون قبرستان لے جایا گیا، اس موقع پر فلسطینیوں شہریوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔

ان کی قبر کو چادروں سے ڈھانپ دیا گیا، قبر پر فلسطینی پرچم لپیٹا گیا جبکہ اس موقع پر بھی شیریں ابو عاقلہ کو خراج تحسین پیش بڑی تعداد میں فلسطینی شہری موجود تھے۔

شہریوں کا کہنا تھا کہ یہاں اس لیے ہیں کیونکہ ہم انصاف کے لیے چیخ رہے ہیں، ہم شیرین ابو عاقلہ کے لیے اور فلسطین کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔

چھاپے اور کارروائیاں

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ گولی چلانے کے ذریعہ کا واضح طور پر تعین کرنا ممکن نہیں ہے جس نے شیریں ابوعاقلہ کو نشانہ بنایا اور ہلاک کیا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے فائر کی جانے والی گولیوں سے ماری گئی ہوں یا جوابی فائرنگ کرنے والے اسرائیلی فوجی کی جانب سے نادانستہ طور پر ان کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

اسرائیلی فورسز نے جنین کے مضافات میں دوبارہ چھاپے مارے جہاں ابو عاقلہ ماری گئی تھیں جبکہ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس دوران 13 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب فلسطینی اسلامی جہاد گروپ نے جنین میں فائرنگ کے تبادلے میں ایک اسرائیلی پولیس افسر کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اور جنین میں ہونے والے واقعات فریقین کو سنگین کشیدگی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔

ابو عاقلہ کی موت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے، گولی لگنے کے بعد کے لمحات کی ویڈیو فوٹیج میں 51 سالہ ابو عاقلہ کو نیلے رنگ کی جیکٹ پہنے ہوئے دکھایا گیا جس پر “پریس” کا نشان تھا۔

مقتولہ صحافی کے کم از کم دو ساتھیوں نے جو ان کے ساتھ تھے کہا کہ وہ اسرائیلی اسنائپر فائر کی زد میں آئے تھے جبکہ وہ عسکریت پسندوں کے قریب نہیں تھے۔

اسرائیل نے ابو عاقلہ کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے،اس نے فلسطینیوں کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کی تجویز پیش کی ہے اور ان سے جانچ پڑتال کے لیے صحافی کو لگنے والی گولی فراہم کرنے کو کہا ہے۔

فلسطینیوں نے اسرائیلی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں