لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے حمزہ شہباز کی حلف برداری کے خلاف تحریک انصاف کی اپیلوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے حمزہ شہباز کی حلف برداری کے خلاف تحریک انصاف کی تین اپیلوں پر سماعت کی۔
یہ درخواستیں تحریک انصاف کے 17 اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔
جسٹس صداقت علی خان کے علاوہ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس شاہد جمیل خان، جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل ہیں۔
دوران سماعت جسٹس صداقت علی خان نے دریافت کیا کہ مخالف فریق کی طرف سے کون پیش ہوا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
جسٹس صداقت علی خان نے دریافت کہ حمزہ شہباز کی طرف سے کون عدالت میں پیش ہوا ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ حمزہ شہباز کی طرف سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ ان اپیلوں پر تحریری جواب داخل کریں گے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ جی بالکل، میں تحریری جواب دوں گا۔
عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکی اپیلوں میں تمام اپیل کنندگان کے دستخط ملتے جلتے ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق نے جواب دیا کہ میں لاہور میں موجود نہیں تھا۔
جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیے کہ آپ کی اپیلوں میں کافی غلطیاں ہیں، غلطیوں کے ساتھ اپیلیں قابل سماعت نہیں ہیں، ہم نے آئین اور قانون کے تحت ان اپیلوں کو سن کر فیصلہ کرنا ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق نے درخواستوں میں غلطیاں دور کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف جواب جمع کرائیں کہ وہ سنگل بینچ میں حمزہ شہباز کے وکیل تھے تو کیسے بطور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔
جسٹس شاہد جمیل نے تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ایک وی لاگ چل رہا ہے جس میں آپ نے بنچ پر تنقید کی ہے۔
جسٹس صداقت علی خان نے اظہر صدیق کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ججوں پر تنقید ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی اور اس حوالے سے رجسٹرار کو بھی کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی ایسا مواد ملے تو فوری کارروائی کریں اور اس وکیل کا فوری لائسنس معطل کیا جائے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلوں پر جائز تنقید ضرور کریں لیکن ججوں پر ایسی تنقید ناقابل برداشت ہے، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سمیت کسی بھی جج پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی۔
جسٹس صداقت علی خان نے اظہر صدیق کو ہدایت کی کہ مستقبل میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور بطور وکیل آپ کو تو وی لاگ کرنا ہی نہیں چاہیے۔
انہوں نے مکالمہ کیا کہ ہم انصاف دینے کے لیے بیٹھے ہیں، انصاف ضرور کریں گے۔
جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ ملک میں آئینی بحران موجود ہے اور ہم اس آئینی بحران کو حل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تمام متعلقہ لوگوں کو بتا دیں کہ ججوں کے بارے میں محتاط ہو کر بات کریں۔
عدالت نے کہا کہ ہم حمزہ شہباز کو جواب جمع کرانے کے لیے آخری موقع دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کی اپیلوں پر سماعت 17 مئی تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سبطین خان سمیت 17 اراکین صوبائی اسمبلی نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے ذریعے پی ٹی آئی کی جانب سے اپیل دائر کی تھی، جس میں نومنتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی تقریب حلف برداری میں صدر پاکستان اور گورنر پنجاب کی جانب سےتاخیر کے خلاف تیسری درخواست پر سنگل بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اپیل میں کہا گیا تھا کہ آئینی درخواست میں صدر اور گورنر کو فریق بنایا گیا نہ ہی کوئی سماعت کا نوٹس جاری کیا گیا جس سے وہ جواب داخل کر کے مدعا علیہ (حمزہ شہباز) کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو متنازع بنا سکیں۔
اپیل میں مزید کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے حمزہ شہباز کی درخواست برقرار رکھنے کے حوالے سے اٹھائے گئے اہم قانونی اور آئینی سوالات پر فیصلے کی وجوہات کے ساتھ غور کیا گیا اور نہ ہی ان کو رد کیا گیا۔
انہوں نے دلیل دی تھی کہ فیصلے میں قانون کی لازمی دفعات کی تعمیل نہیں کی گئی اور سنگل جج نے آئین کے آرٹیکل 4 اور 10 اے کے تحت ضمانت شدہ مناسب عمل کے بغیر غیر قانونی فیصلہ سنایا۔
اپیل کے مطابق حمزہ شہباز کی پچھلی دو اپیلوں میں دیئے گئے فیصلے آئین کے مطابق نہیں تھے اور آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اس پر توہین عدالت کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ہائی کورٹ کو نو منتخب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر سمیت کسی مخصوص شخص کو نامزد کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ غیر قانونی فیصلہ آئین کی مختلف شقوں، قابل اطلاق قانون کی خلاف ورزی اور غیر پائیدار عمل ہے۔
اس اپیل پر دو رکنی بینچ کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ان کی معاونت کے لیے پہلے ہی نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔
عید الفطر سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی تھی اور لارجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست کے ساتھ معاملے کو چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا۔
دو رکنی بینچ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ درخواست میں اٹھائے گئے آئینی سوالات پر آئینی طور پر غور کرنے کے لیے 5 یا اس سے زائد ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے۔
یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 29 اپریل کو قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کو ہدایت کی تھی کہ وہ بروز ہفتہ 30 اپریل صبح ساڑھے بجے پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لیں۔
عدالت کا یہ فیصلہ پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی جانب سے صدر عارف علوی اور صوبے کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کے رویےکی وجہ سے عدالت کی جانب سے نامزد کردہ شخص کے ذریعہ حلف لینے کی دائر تیسری درخواست پر سامنے آیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے حمزہ شہباز کی حلف برادری کے لیے دائر کی جانے والی تیسری درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت عالیہ کے جسٹس جواد حسن نے فیصلہ سناتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کو حمزہ شہباز سے حلف لینے کا حکم دیا تھا۔
قبل ازیں 27 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو حکم دیا تھا کہ 28 اپریل تک نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لیں یا اس کام کے لیے کسی اور کو اپنا نمائندہ نامزد کرنے کی ہدایت جاری کریں۔
تحریری فیصلے میں ریمارکس دیے گئے تھے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری کے بعد گزشتہ 25 دنوں سے صوبے کو فعال حکومت کے بغیر چلایا جارہا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ گورنر پنجاب، آئین کے آرٹیکل 255 کے مطابق 28 اپریل کو یا اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف کے عمل کی تکمیل کو خود یا اپنے نامزد کردہ نمائندے کے ذریعے یقینی بنائیں۔
قبل ازیں حمزہ شہباز کی جانب سے 19 اپریل کو حلف برداری کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ گورنر اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر کے آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، لاہور ہائی کورٹ گورنر پنجاب کو حلف لینے کے احکامات جاری کرے۔
درخواست مکمل نہ ہونے کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست واپس کردی گئی تھی، جس کے بعد لیگی رہنما نے اگلے روز 20 اپریل کو دوبارہ درخواست دائر کی تھی۔
حمزہ شہباز نے تقریب حلف برداری سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے سے متعلق دوسری 25 اپریل کو دائر کی تھی۔
درخواست حمزہ شہباز کی جانب سے دائر کی گئی نئی درخواست میں سیکریٹری صدر پاکستان، وفاقی حکومت اور سیکریٹری وزیراعظم کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے صدر پاکستان کو حلف کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، صدرِ پاکستان بغیر کسی وجہ کے اس عدالت کے حکم میں اور تاخیر کر رہے ہیں۔