سری لنکا میں پرتشدد احتجاج کے دوران 7 افراد مارے گئے اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے، جس کے بعد فوج اور پولیس کو بغیر وارنٹی شہریوں کی گرفتاری کے لیے ہنگامی اختیار دیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں جاری تاریخ کے بدترین معاشی بحران کے دوران شہریوں کے غصے میں شدت آگئی ہے اور کرفیو توڑتے ہوئے حکومتی شخصیات، حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اور صوبائی سیاست دانوں کے گھروں ،دکانوں اور کاروبار کو نذر آتش کردیا گیا۔
پولیس کے ترجمان نیہال تھیلڈوا نے کہا کہ کشیدگی کی رپورٹس کے باوجود منگل کو قدرے بہتر ماحول رہا لیکن اس دوران 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جس کے مطابق سری لنکا میں صبح 7 بجے سے کرفیو نافذ کردیا گیا۔
صدر گوٹابایا راجا پکسے نے فوج اور پولیس کو وسیع اختیارات دیے جس کے تحت وہ گرفتاری کے وارنٹ کے بغیر لوگوں کو گرفتار اور پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق فوج گرفتار شہریوں کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے 24 گھنٹے تک حراست میں رکھ سکتی ہے، فورس نجی املاک کی تلاشی لے سکتی ہے، جس میں نجی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے کسی بھی شہری کو قریبی پولیس اسٹیشن منتقل کردیا جائے گا اور 24 گھنٹے کی ڈیڈ لائن ہوگی۔
ماہرین نے ہنگامی اقدامات کے غلط استعمال کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا۔
کولمبو میں قائم سینٹر فار پالیسی الٹرنیٹیوز نامی تھنک ٹینک کے بھووانی فونسیکا کا کہنا تھا کہ ایک ایسی صورت حال میں جہاں ایمرجنسی اور کرفیو دونوں نافذ ہوں تو اس کے غلط استعمال سے متعلق نگرانی کون کرے گا۔
اس سے قبل مظاہروں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے سری لنکن صدر نے جمعے کو ایمرجنسی حالات کا نفاذ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پیر کو وزیر اعظم مہندا راجاپکسے نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد عوام کے اشتعال کمی دیکھی گئی، تاہم مختلف جھڑپوں کے دوران 200 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ہزاروں حکومت مخالف مظاہرین نے رات گئے سابق وزیر اعظم کے گھر پر دھاوا بولا تاہم فوجی کارروائی کے ذریعے انہیں ریسکیو کرلیا گیا، اس دوران پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ آرمی نے علی الصبح سابق وزیر اعظم اور ان کے اہلخانہ کو محفوظ طریقے سے نکال لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کمپاؤنڈ میں تقریباً 10 پیٹرول بم پھینکے گئے۔
راجاپکسے کے خاندان کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی مہینوں سے سری لنکا میں دوبارہ بلیک آؤٹ اور قلت کا سامنا ہے، یہ بحران سری لنکا کی آزادی کے بعد ملک میں پیش آنے والا بدترین بحران ہے۔
صدر گوٹابایا راجاپکسے تاحال عہدے پر برقرار ہیں تاہم ان کے پاس تمام تر اختیارات اور سیکیورٹی فورسز کی کمانڈ موجود ہے۔
حکومت کے خلاف ہفتوں سے پُرامن احتجاج جاری ہے تاہم یہ احتجاج گزشتہ روز اس وقت پرتشدد ہوگیا جب وزیر اعظم مہندا راجاپکسے کے استعفے کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے بس کے ذریعے دارالحکومت میں داخل ہونے والے مظاہرین پر ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی برسات کردی گئی۔
احتجاج میں شریک ایک سری لنکن شہری نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’ہمیں مارا گیا، میڈیا ورکرز اور خواتین پر تشدد کیا گیا‘۔
پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور کولمبو میں فوری طور پر کرفیو نافذ کردیا گیا، تاہم بعد ازاں اس اقدام کو ملک بھر میں نافذ کردیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح کرفیو ختم کردیا جائے گا، اس کے ساتھ سرکاری اور نجی اداروں سمیت دکانوں اور اسکولوں کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امریکی سفیر جولی چنگ نے ٹوئٹ کیا کہ واشنگٹن ’پُرامن احتجاجی مظاہرین کے خلاف تشدد‘ کی مذمت کرتا ہے اور سری لنکن حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ’وہ تشدد کو ہوا دینے والوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے سمیت تمام تر تحقیقات کرے‘۔
فائرنگ سے ہلاکت
کرفیو کے باوجود حکومت مخالف مظاہرین، حکومت کے حامیوں کے حملوں پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے پولیس کے احکامات ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کولمبو کے باہر حکمراں جماعت کے قانون ساز امراکیرتھی اتھو کورالا نے دو افراد کو فائرنگ کر کے قتل کردیا، 27 سالہ شخص کی ہلاکت کے بعد حکومت مخالف مظاہرین کا ہجوم ان کے گرد جمع ہوگیا۔
پولیس کے عہدیدار نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’بعد ازاں قانون ساز نے اپنی ہی بندوق سے اپنی جان لے لی‘۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اتھوکورالا کا محافظ بھی مردہ حالت میں پایا گیا۔
پولیس نے کہا کہ مظاہرین نے نام لیے بغیر بتایا کہ ایک اور قانون ساز کے مظاہرین پر فائرنگ کی واقعے میں 2 افراد ہلاک اور 5 زخمی ہوئے۔
مشتعل افراد نے راجاپکسے اور دیگر سیاستدانوں کے حمایتیوں کے گھروں کو نذر آتش کردیا جبکہ حکومت کے وفاداروں کے زیر استعمال گاڑیوں، بسوں اور ٹرکس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
کولمبو کے قومی ہسپتال کے ڈاکٹرز نے حکومت کے زخمی حمایتیوں کو ریسکیو کیا اور فوجیوں نے زخمیوں کو لے جانے کے لیے بند دروازوں کو توڑ دیا۔
سری لنکن کرکٹ اسٹار کا حکومت پر تنقید
سری لنکا کے سابق عظیم کرکٹر کمار سنگا کارا اور مہیلاجے وردھنے نے مظاہروں کے دوران 5 افراد کی ہلاکت اور 200 سے زائد زخمیوں کی اطلاع پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سری لنکا میں کرکٹ کے شائقین کی بڑی تعداد ہے جو موجودہ اور سابق کرکٹرز کے مداح ہیں اور ان کے بیانات کا اثر لیتے ہیں۔
کمار سنگاکارا نے ٹوئٹر میں کہا کہ پرامن مظاہرین اپنی بنیادی ضروریات اور حقوق کا مطالہ کر رہے ہیں، جن پر حکومت میں بیٹھے ہوئے ٹھگوں کی مدد سے ٹھگوں نے دھاوا بول دیا ہے، جو شرم ناک ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ یہ ریاستی کی سرپرستی میں ہونے والی کشیدگی ہے، جو ارادی طور پر اور منصوبے کے تحت ہے۔
سری لنکن کرکٹ ٹیم کے ایک اور سابق کپتان مشہور بلے باز مہیلاجے وردھنے کا ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جس طرح پولیس افسران کے سامنے خواتین کو کس بے دردی سے مارا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پوڈوجانا پارٹی اور سری لنکا کی حکومت کو اس کشیدگی پر شرم کرنی چاہیے۔