سینیٹ کمیٹی نے مذہب کے مبینہ غلط استعمال اور سیاست میں مذہب کو بطور ہتیھار استعمال کرنے کی پُر زورمذمت کرتے ہوئے مسجد نبوی واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حامیوں کے خلاف توہین مذہب کے تحت درج مقدمات کو انتہائی احتیاط سے چلانے پر زور دیا۔
رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی زیرِ سربراہی اسلام آباد میں منعقد ہوا، اس اجلاس کا انعقاد مسجد نبوی میں عمرہ زائرین کی جانب سے سرکاری وفود کے خلاف نعرے بازی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی آگاہی کے لیے کیا گیا۔
زیر بحث واقعے میں، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں جن میں ممبر قومی اسمبلی راشد شفیق بھی شامل ہیں جنہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا تاہم پیر کو انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بدقسمتی سے نعرے بازی کا یہ واقعہ سعودی عرب میں پیش آیا جبکہ سیاسی رہنماؤں کے خلاف پاکستان میں مقدمات قائم کیے گیے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے کونسل ممبر نے اجلاس کے دوران توہین مذہب کے جھوٹے اور غیر سنجیدہ الزامات کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے کی شدید مذمت کی اور اسے ایسی چند ابتدائی مثالیں قرار دیا جہاں پر یہ قانون سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
ایچ آر سی پی کی رکن نسرین اظہر نے کہا کہ اگر مسجد نبوی میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو ایف آئی آر درج کرنے سے بہتر معافی ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کو جذباتی کرکے اکسایا نہیں جاسکے گا۔
مختلف اداروں کے نمائندگان نے بھی توہین مذہب کے غلط استعمال کو ختم کرنے کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا اور الزامات لگانے کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین میں ترامیم کرنے کی تجویز دی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ پچھلے سال توہین مذہب / رسالت کے الزمات کے تحت 580 مقدمات درج کیے گیے جو کہ 100 فیصد اضافہ ہے۔
اجلاس میں پولیس ورکنگ پیپر دکھایا گیا۔ ورکنگ پیپر کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 295، 295 اے اور 296 کے تحت ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے جن کا تعلق توہین مذہب کے خلاف جرائم سے ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ایف آئی آر کا اندراج پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 4 کے تحت کیا گیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے کسی شہری کی جانب سے پاکستان یا پاکستان سے باہر کیے جانے والے جرم کو ایف آئی آر میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے دوران اجلاس نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ توہین مذہب کے الزامات کے بعد ان کی جان کو خطرہ ہے۔
انہوں نے سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین پر زور دیا ہے کہ ملزمان کی حفاظت کے پیش نظر اس معاملے کو زیادہ نمایاں کرنے کے بجائے لو پروفائل رکھا جائے۔
سینیٹر کامران مائیکل نے بھی ملک میں توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال کی مذمت کی اور کہا کہ کمیٹی اس معاملے کو صرف ان لوگوں کے لیے نمایاں نہ کرے جو ان دو ایف آئی آر میں شامل ہیں بلکہ یہ وقت ہے کہ اس معاملے کو ملک کے تمام لوگوں کے لیے اٹھانا چاہیے، جنہیں توہین مذہب/ توہین رسالت کے الزامات کا سامنا ہے۔
اجلاس سے پہلے وزارت داخلہ کے عہدیدار نے تجویز دی کہ معاملے کی وضاحت کے لیے دفتر خارجہ کے ذریعے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کو ہدایات جاری کریں۔
پنجاب پولیس کے افسران نے دورانِ اجلاس بتایا کہ مسجد نبوی واقعے کے حوالے سے دو ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے جس میں ایک فیصل آباد اور دوسری اٹک میں کٹوائی گئی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ایف آئی آر کے حوالے سے مزید تفصیلات مانگی ہیں، فیصل آباد کی انتظامیہ نے کمیٹی کو یقین دہانی کروائی کہ ایف آئی آر میں درج واقعے کی تحقیقات پوری احتیاط اور قوانین کے مطابق کی جائے گی۔
کمیٹی نے معاملے کی مزید تفصیلات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کمیٹی کا اگلا اجلاس 16 مئی کو منعقد کیا جائے گا۔