پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پنجاب میں 3 وزارتوں سے مطمئن نظر آرہی ہے جبکہ گورنر اور اسپیکر کے عہدوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر دباؤ نہیں ڈال رہی جسے مسلم لیگ (ن) اپنے پاس رکھنے کی خواہشمند ہے۔
کے مطابق پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود مبینہ طور پر اس فیصلے سے ناراض ہیں جنہیں اس سے قبل ان کی پارٹی نے گورنر کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔
17 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر کو بھیجی گئی پہلی سمری میں گورنر پنجاب کے لیے مخدوم احمد محمود کا نام تجویز کیا تھا۔
تاہم جب صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اس سمری کو بغیر کسی فیصلے کے 15 روز تک روکے رکھنے کے بعد واپس کردیا تو وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے موجودہ گورنر عمر سرفراز چیمہ کو ہٹا کر بہاولپور سے مسلم لیگ (ن) کے بلیغ الرحمٰن کے تقرر کے مشورے کی دوبارہ توثیق کی۔
آئین کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ اگر صدر عارف علوی 10 روز کے اندر وزیر اعظم کی سفارش پر عمل نہیں کرتے ہیں تو بلیغ الرحمٰن خود بخود گورنر بن جائیں گے۔
شاہد خاقابن عباسی کی کابینہ میں وزیر رہنے والے بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ وزیر اعظم نے گورنر پنجاب کے لیے میرا نام تجویز کرنے کی سمری صدر کو بھجوائی ہے اور امید ہے کہ صدر اس سمری کو قبول کریں گے۔
پیپلزپارٹی ذرائع نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے حکومت سنبھالنے سے پہلے پیپلز پارٹی کو گورنر کا عہدہ دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئی، مسلم لیگ (ن) اس قسم کی سیاست کے لیے مشہور ہے۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف، وزیر اعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ اور پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے ملاقات کی اور صوبے میں اختیارات کی تقسیم کے فارمولے پر تبادلہ خیال کیا۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ملاقات میں پنجاب میں اقتدار کی تقسیم کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے انتظامات پر تبادلہ خیال کیا گیا، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کی گورنرشپ کے لیے اپنی پارٹی کا مطالبہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی خواہش پر واپس لے لیا۔
انہوں نے کہا کہ پی پی پی نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے کا مطالبہ بھی واپس لے لیا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) یہ اہم عہدہ ایسے کسی اتحادی کو دینے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی جس کے پاس ایوان میں صرف 7 نشستیں ہیں۔
دونوں جماعتوں کے درمیان تازہ ترین مفاہمت کے مطابق پی پی پی کے وفد نے اپنے 3 ارکان صوبائی اسمبلی کے نام وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کو ان کی کابینہ میں شامل کرنے کے لیے دیے ہیں جس کی تشکیل ابھی باقی ہے، نئی صوبائی کابینہ کی تشکیل گورنر پنجاب کے اس مؤقف کے بعد مؤخر کر دی گئی ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر تشکیل دی گئی حکومت میں عہدیداران سے حلف نہیں لیں گے۔
اندرونی ذرائع نے بتایا کہ متوقع کابینہ میں پی پی پی کے حسن مرتضیٰ، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر اور مخدوم عثمان محمود کے نام شامل ہیں، پارٹی نے مختلف قائمہ کمیٹیوں کے پارلیمانی سیکریٹریز کے لیے شازیہ عابد، غضنفر عباس لانگا اور رئیس نبیل کے نام بھی تجویز کیے ہیں، پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات شہزاد سعید چیمہ کو وزیر اعلیٰ کا مشیر بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی کو پنجاب میں مختلف محکموں میں کچھ عہدے دینے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے، پی پی پی کو مستقبل میں سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کا وعدہ بھی کیا گیاہے۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پارٹی رہنما حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دینے یہاں آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ہمیں حکومت میں ساتھ ساتھ چلنا ہے اس لیے ہم نے مختلف معاملات پر مشاورت کی، مرکز کی طرح پنجاب میں بھی ہم باہمی مشاورت کے ساتھ چلیں گے۔
صوبے میں اختیارات کی تقسیم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اختیارات کے ساتھ ہم بوجھ بھی تقسیم کریں گے۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سب کچھ پہلے ہی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں طے پاگیا تھا۔