ترکی میں جاری معاشی بحران اور آئندہ آنے والے الیکشن نے سعودی حکومت کی پالیسیوں کے بڑے ناقد اور ترک صدر رجب طیب اردوان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کردیا۔ کے مطابق سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے صحافی جمال خاشقجی سعودی حکومت پر اکثر تنقید کیا کرتے تھے اور ان کو 2018 میں استنبول میں قائم سعودی کے قونصل خانہ میں ’ہٹ اسکواڈ‘ نے قتل کر دیا تھا۔خاشقجی کے قتل کے بعد طیب اردوان نے سعودی عرب کے ولی عہد پر قتل کے احکامات دینے کے الزامات عائد کیے تھے اور ان کے ساتھ ثبوت شیئر کرنے سے انکار کرتے ہوئے سعودی عرب کے قانونی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
تاہم اب معاشی مشکلات اور انتخابات کی آمد کو دیکھتے ہوئے ترکی کے وزیر اعظم سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔
یہ دورہ ترکی کی سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک ماہ سے جاری کوششوں کا حصہ ہے جہاں خاشقجی کے قتل پر ترکی کے مؤقف کو دیکھتے ہوئے سعودی نے ترکی کی درآمدات کا غیرسرکاری بائیکاٹ کردیا تھا لہٰذا اردوان کا یہ دورہ ترکی کی جانب سے پالیسی میں حیران کن تبدیلی ہے۔
اس ماہ ترکی کی جانب سے اس قتل پر اپنا مقدمہ ریاض منتقل کرنے کے فیصلے کو انسانی حقوق گروپوں اور اپوزیشن نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کو سفارتی طور پر تنہائی کا سامنا کرنے کے پیش نظر باہمی ربط کی بہت ضرورت تھی۔
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ترکی میں مقیم اسکالر بیرول باسکان نے کہا کہ ترکی اثر و رسوخ کے اس کھیل کو جاری نہیں رکھ سکتا جس کا وہ عرب بہار کے آغاز سے ہی تعاقب کر رہا ہے۔
ترکی نے علاقائی ممالک کی مخالفت کے باوجود حالیہ سالوں میں قطر اور سومالیہ میں فوجی اڈے قائم کیے ہیں۔
شام، لیبیا، نگورنو کاراباخ اور دیگر جگہوں پر تنازعات کے بارے میں انقرہ کے موقف کے ساتھ ساتھ روسی دفاعی نظام کے حصول نے بھی پڑوسیوں اور نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ترکی کے تناؤ میں اضافہ کیا ہے۔
بیرل باسکان نے ترکی کے موقف میں تبدیلی کی وجہ سے معاشی مشکلات کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترکی کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی سوچ نے اسے تنہا کردیا ہے۔
تاہم انقرہ اپنی خارجہ پالیسی کو ’انسان اور کاروبار دوست‘ کے طور پر بیان کرتا ہے اور وزیر خارجہ نے سال 2022 کو ترکی کے لیے ’معمول پر آنے کا سال‘ قرار دیا ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ خاشقجی کے مقدمے کا فیصلہ سیاسی نہیں تھا، اس اقدام سے پہلے وزیر خارجہ میولوت چاؤش اوغلو نے کہا کہ ریاض کے ساتھ “عدالتی تعاون” کی شرائط پہلے پوری نہیں کی گئی تھیں لیکن فریقین اب اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
ترکی کی معیشت برسوں سے مشکلات کا شکار ہے اور اردوان کی غیر روایتی مالیاتی پالیسی کہ وجہ سے ترکی کی کرنسی میں گزشتہ سال کے آخر سے بحران کا آغاز ہوا تھا اور تب سے ترکی بین الاقوامی میل جول کے ذریعے دباوؑ کو کم کرنے کا طریقہ تلاش کر رہا ہے۔
چین، قطر، جنوبی کوریا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ 28ارب ڈالر مالیت کے کرنسی کے تبادلے کے سودوں کے علاوہ ترکی ریاض کے ساتھ بھی معاہدے پر نظریں جمائے ہوئے ہے جبکہ وہ ابوظبی سے کیے گئے سرمایہ کاری اور کنٹرئیکٹ کی طرز پر سعودی عرب سے بھی معاہدوں کا خواہاں ہے۔
بدھ کو ترک وزیر خزانہ نورالدین نباتی نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ تعاون پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔