پاکستان تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان لفظی جنگ اس وقت نئی بلندیوں کو پہنچ گئی جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر پر ان کی پارٹی کے خلاف ’متعصبانہ فیصلے‘ کرنے کا الزام لگایا اور چیف الیکشن کمشنر نے پی ٹی آئی کے اس بیانیے کو ’کمیشن کو بدنام کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ رپورٹ کے مطابق ایک بیان کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک فرد کی طرف سے فیصلے کیے گئے حالانکہ یہ الزام زمینی حقائق کے برعکس ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین کے ’بے بنیاد‘ الزامات کو مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو تمام فیصلے آئین اور قانون کی روشنی میں کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض عناصر جان بوجھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن میں انفرادی طور پر فیصلے کیے جا رہے ہیں جو کہ غلط اور حقائق کے منافی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ جنوری 2020 سے لے کر آج تک تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے گئے اور ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں تھا جس میں اختلافی نوٹ لکھا گیا ہو، چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک کے بہترین مفاد میں آئین کے تحت اور حلف کے مطابق بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کرتا رہے گا۔
یہ بیان پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’ایجنٹ‘ ہونے کا الزام عائد کرنے اور ان سے فوری طور پر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں ہے، جب ملک کی سب سے بڑی جماعت کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں ہے تو انہیں استعفیٰ دینا چاہیے۔
عمران خان نے الزام لگایا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عہدے پر رہنے کا حق نہیں، وہ تنہا فیصلے کرتے ہیں اور ان کے تمام فیصلے پی ٹی آئی کے خلاف ہوتے ہیں۔
اپنی پارٹی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔
عمران خان نے الزام لگایا کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں میری پارٹی کے خلاف ثبوت گھڑنے کی سازش کی گئی۔
پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی
چیف الیکشن کمشنر نے صحافیوں کو بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی کا کیس 30 دن میں نمٹا دے گا۔
الیکشن کمیشن کے تین رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 (اے) کے تحت 20 منحرف اراکین قومی اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے ریفرنس کی سماعت کی جبکہ باڈی نے اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جس کے مطابق دو ارکان کی ریٹائرمنٹ کے باعث کمیشن نامکمل ہونے کی وجہ سے وہ ریفرنسز کی سماعت نہیں کر سکتا۔
سماعت کے آغاز میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ ادارہ اختلاف کرنے والے ہر رکن کو بلائے گا اور ’کہانی کا دوسرا رخ‘ سنے گا۔
منحرف اراکین قومی اسمبلی نور عالم خان کے وکیل نے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے تحریک عدم اعتماد کے وقت نہ تو اپنی پارٹی سے استعفیٰ دیا تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اس کے علاوہ یہ کمیشن نامکمل ہے اس لیے وہ اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتا، انہوں نے یاد دلایا کہ اسی طرح کا ایک کیس 2015 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے لایا گیا تھا، اس وقت الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ صرف ایک مکمل کمیشن ہی ایسے مقدمات کی سماعت کر سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے نور عالم کے وکیل ان تحفظات پر اعتراض کیا لیکن نور عالم کے وکیل نے زور دے کر کہا کہ کمیشن دوسرے کیسز سن سکتا ہے، یہ کیس نہیں اور اس کمیشن کے نامکمل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کرتے۔
دلائل سننے کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف اپنا جواب جمع کرائیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن منصفانہ سماعت کرتا ہے، اسپیکر ریفرنس کی ایک کاپی لے کر 6 مئی کو اپنا جواب جمع کرا سکتے ہیں، ہم 30 دنوں میں کیس کو سمیٹ لیں گے۔۔
سکندر سلطان راجا نے سماعت 6 مئی تک ملتوی کر دی جب اسی دن پنجاب اسمبلی کے 26 اراکین ان کے خلاف نااہلی کی درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے پیش ہوں گے۔