وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر 19سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیرشرعی قرار دے دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ تمام قرض سود سے پاک نظام کے تحت لیے جائیں اور دسمبر 2027 تک معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔
چیف جسٹس شرعی عدالت نور محمد مسکانزئی، جسٹس محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر کیس کی سماعت کی۔وفاقی شرعی عدالت نے کہا کہ کیس میں اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کی رائے لی گئی اور تمام فریقین نے سود سے پاک بینکنگ نظام کے بارے میں رائے دی۔
وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف درخواستوں پر 19 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے قرض ادائیگی میں تاخیر پر انٹرسٹ (سود) لینے پر پابندی عائد کردی اور ویسٹ پاکستان منی لانڈر ایکٹ کو بھی خلافِ شریعت قرار دے دیا۔
جسٹس سید محمد انور نے فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے اور ملک سے ربا (سود) کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں کی جانب سے قرض کی رقم سے زیادہ وصولی ربا کے زمرے میں آتا ہے اور اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے۔
شرعی عدالت نے حکومت کو اندرون و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839 اور سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے قرض ادائیگی میں تاخیر پر انٹرسٹ (سود) لینے پر پابندی عائد کر دی۔
شرعی عدالت نے یکم جون 2022 سے انٹرسٹ لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ حکومت تمام قوانین میں سے ’انٹرسٹ‘ کا لفظ فوری حذف کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے لیے پانچ سال کا وقت کافی ہے اور توقع ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسلامی بینکنگ کا ڈیٹا عدالت میں پیش کیا گیا اور سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں اور معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے لہٰذا وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ دو دہائیاں ہو چکیں لیکن سود کے خلاف حکومتوں نے کوئی اقدامات نہیں کیے اور حکم دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 31 دسمبر 2022 تک قوانین میں تبدیلی کریں۔
وفاقی شرعی عدالت نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پانچ سال کا وقت دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ 31 دسمبر 2027 تک ملک کا معاشی نظام سودی نظام سے پاک تشکیل دے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ سودی نظام کے خلاف قوانین کے بارے میں پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹس پیش کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے خلاف کیس کئی دہائیوں سے زیر سماعت ہے لیکن آج تک فیصلہ نہ ہوسکا۔
عدالت میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور کئی رہنما بھی موجود تھے، فیصلہ آتے ہی عدالت میں لوگوں نے تکبیر کے نعرے لگانا شروع کردیے۔
فیصلے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کو آج عظیم فتح نصیب ہوئی ہے, سودی نظام خلاف شریعت ہے اور اس نے پاکستانی معیشت کو کوکھلا کر دیا ہے، حکومت فیصلے کے مطابق جلد از جلد اقدامات کرے، یہ اس کی اسلامی، آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔
سود کے خلاف مقدمے کا پس منظر
وفاقی شرعی عدالت میں 30 جون 1990 کو سودی نظام کے خاتمے سے متعلق پہلی درخواست دائر کی گئی تھی، جس کے بعد 1991 میں ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں شرعی عدالت کا تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ سنایا تھا تاہم اس فیصلے کو وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور حکومت کو جون 2000 تک فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، تاہم بعد ازاں اُس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر بھی نظرثانی اپیل دائر کردی گئی تھی۔ جس کے بعد 24 جون 2002 کو شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کردیا گیا اور ربا کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس شرعی عدالت بجھوا دیا گیا تھا۔
وفاقی شرعی عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان مدت پوری کر کے گھر چلے گئے جبکہ 2002 سے 2013 تک مقدمے کی سماعت نہ ہو سکی۔
تقریباً 19 سال سے شریعت کورٹ میں سودی نظام کیخلاف کیس زیر التوا ہے، اس دوران کئی سماعتیں ہوئیں، متعدد درخواست گزار اور عدالتی معاونین انتقال کر گئے۔
2013 سے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور آج 19سال بعد مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔