کراچی: پولیس نے بدھ کے روز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی تحقیقات کا آغاز کردیا جس میں تین چینی ماہرین تعلیم اور ان کے مقامی وین ڈرائیور ہلاک اور ایک چینی استاد سمیت چار دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔رپورٹ کے مطابق محکمہ انسداد دہشت گردی نے ریاست کی جانب سے مبینہ ٹاؤن تھانے میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کے دو کمانڈروں کے خلاف قتل اور دہشت گردی کے الزامات میں مقدمہ درج کیا۔حکام کا ماننا ہے کہ حملے کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو سبوتاژ کرنا ہے اور انہیں ایک غیر ملکی دشمن ایجنسی کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکار راجا عمر خطاب نے بتایا کہ خودکش حملہ آور کی شناخت شاری بلوچ عرف برماش کے نام سے ہوئی، وہ 1991 میں تربت میں پیدا ہوئی، حملہ آور شادی شدہ تھی اور اس کے دو بچے تھے۔
لاپتا شوہر
انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتن کا تعلق اصل میں کیچ سے تھا، وہ اس وقت جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) میں صحت عامہ کا کورس کر رہے تھے اور قریبی فائیو اسٹار ہوٹل میں مقیم تھے تاہم ان کی اہلیہ اپنے بچوں کے ساتھ گلستان جوہر میں رہتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے شوہر حملے سے ایک ہفتہ قبل اپنا مقام چھوڑ چکے تھے اور شوہر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے، انہوں نے کہا کہ شوہر اور دیگر سہولت کاروں کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے عہدیدار نے یہ بھی واضح کیا کہ خودکش حملہ آور جامعہ کراچی کی طالبعلم نہیں تھی، اس نے یونیورسٹی کی سطح تک اپنی تمام تعلیم بلوچستان میں حاصل کی اور بعد میں ایک سرکاری اسکول ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی تھی۔
افسر نے مزید کہا کہ کالعدم بی ایل اے نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور حملہ آور کے بارے میں تفصیلات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کی ہیں۔
زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر
اس کے علاوہ ایس ایس پی شرقی سید عبدالرحیم شیرازی نے بتایا کہ ایک چینی سمیت چاروں زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی فیکلٹی ممبران کی وین کی حفاظت کرنے والے دو رینجرز اہلکاروں کو معمولی چوٹیں آئیں، ایک نجی گارڈ حامد کو ٹانگ اور چہرے پر زخم آئے جبکہ چینی استاد وانگ یوکنگ کی سرجری ہوئی ہے۔
جناح ہسپتال کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ چار جلی ہوئی لاشیں اور پانچویں شخص کی باقیات کو پوسٹ مارٹم کے لیے منگل کی شام ہسپتال لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چار لاشیں جن میں دو مرد اور دو خواتین ہیں، وہ شناخت کے قابل نہیں ہیں اور 100 فیصد جلی ہوئی تھیں، ڈی این اے پروفائلنگ کے لیے ان کے متعدد نمونے لیے گئے۔
پولیس سرجن نے کہا کہ مبینہ خودکش حملہ آور کی باقیات میں دونوں ٹانگیں(گھٹنے کے نیچے)، بالوں سے جڑی کھوپڑی اور جسم کے کچھ دوسرے حصے (پٹھے اور جلد) شامل ہیں، تمام حصوں سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے گئے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹس تیار کر کے ڈی این اے کے نمونے کراچی یونیورسٹی کی لیبارٹری میں بھیجے گئے اور اب ہم نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایف آئی آر درج
ایس ایچ او بشارت حسین کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے جب انہیں منگل کو دوپہر 2 بجے جامعہ کراچی میں دھماکے کی اطلاع ملی، وہ جائے وقوع پر پہنچے اور دیکھا کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب ایک وین اور رینجرز کی ایک موٹر سائیکل دھماکے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے فائر بریگیڈ، بم ڈسپوزل اسکواڈ، کرائم سین یونٹ اور ایمبولینسز کو بلایا، ایک مکمل طور پر جلی ہوئی لاش ڈرائیور کی سیٹ پر پڑی تھی جبکہ تین دیگر جلی ہوئی لاشیں وین کی پچھلی سیٹوں پر پڑی تھیں، کچھ فاصلے پر عورت کے جسم کے ٹکڑے پڑے تھے جنہیں پوسٹ مارٹم کے لیے جے پی ایم سی بھیج دیا گیا۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم نے جائے حادثہ کا معائنہ کیا اور نمونوں کے چار پارسل جمع کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ خودکش دھماکا تھا۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ انٹیلی جنس ذرائع سے انہیں معلوم ہوا کہ کالعدم بی ایل اے مجید بریگیڈ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ بی ایل اے مجید بریگیڈ کے عسکریت پسند کمانڈر بشیر زیب اور رحمان گل اور دیگر اس حملے میں ملوث تھے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ بی ایل اے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو خراب اور دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے اپنی کالعدم تنظیم کی تشہیر چاہتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی دشمن غیرملکی ایجنسی بھی اس میں ملوث ہو۔
دریں اثنا سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے حملے میں جاں بحق وین ڈرائیور محمد خالد نواز کے ورثا کے لیے 10 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔