لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز سے بطور وزیر اعلیٰ حلف نہ لینے کے خلاف درخواست پر سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل صبح 10 بجے سنایا جائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز سے بطور وزیر اعلیٰ حلف نہ لینے کے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کےخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس امیر بھٹی نے حمزہ شہباز کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہوئے، سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان نے عدالتی حکم موصول ہوتے ہی وزیر اعظم سے معاونت مانگی، وزیر اعظم کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت آئین کے تحت ہی تمام اقدامات کریں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کے بعد معاونت لینا ضروری تھا، عدالتی حکم میں ہدایات صدر پاکستان کے لیے تھیں۔
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ صدر پاکستان نے قانون کے تحت وزیر اعظم سے تجویز مانگی۔
وکیل کے جواب پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کی معاونت کی ضرورت نہیں تھی۔
دوران سماعت نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے دو بار صدر کو خط لکھا کہ حلف کے لیے نمائندہ مقرر کریں۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں گورنر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی ہے، مجھے قانون کی وہ شق بتا دیں جس سے پتا چلے کہ گورنر وزیر اعلیٰ کے الیکشن پر اپنی رائے دے سکتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ گورنر نے صدر کو بھجوا دیا ہے، سب کو تحمل سے کام لینا چاہیے معاملہ صدر کے پاس زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تحمل کے ساتھ ہی کیس صدر پاکستان کو بھیجا تھا، صدر نے ہائی کورٹ کے آرڈر کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے، آپ تحمل کی بات کرتے ہیں پچھلے 25 دن سے آئین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی قانون بتا دیں جس کے تحت صوبہ بغیر چیف ایگزیکٹو رہ سکتا ہے، صوبے میں حکومت اور کابینہ نہیں ہے تو صدر پاکستان نے کیا اقدامات کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بتائیں صدر پاکستان نے آج تک کیا اقدامات کیے، لاہور ہائی کورٹ نے صدر پاکستان کو آرڈر بھیجا لیکن انہیں پرواہ ہی نہیں، عدالت نے صدر کو ریاست کے سربراہ کے طور پر پورا موقع دیا، آپ لوگوں کی آنکھ پندرہ دن بعد کھلے گی یا پہلے بھی کھل سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صدر پاکستان پہلے سو رہے تھے اس عدالت نے انہیں جگایا ہے، صدر پاکستان کہتے ہیں ابھی ان کے پاس پندرہ دن ہیں وہ اس معاملے کو دیکھ لیں گے، حالانکہ یکم اپریل سے گورنر نے وزیر اعلیٰ کا استعفیٰ منظور کر رکھا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ صدر مملکت کو ہائی کورٹ کا تحریری حکم تین روز پہلے موصول ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر صدر کو سارے معاملے سے آگاہی تھی تو وہ کیسے خاموش تھے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کوئی کام نہ کرنے پر عدالت کو جواب دہ نہیں ہے، یہ صورتحال آئندہ کے لیے بڑی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہی 22 اپریل کو فیصلہ کیا تھا، صدر کو احساس نہیں ہوسکا کہ صوبے کا کیا کرنا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ آپ کو بھی احساس نہیں ہوا کہ اسمبلی میں کیا ہوا۔
جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تو کوئی فیصلہ کرکے بھیج دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے حمزہ شہباز کی درخواست پر کارروائی مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل صبح 10 بجے سنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کی حلف نہ لینے کے معاملے پر نئی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
قبل ازیں حمزہ شہباز نے حلف نہ لینے کے معاملے پر دوبارہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
حمزہ شہباز کی جانب سے وکیل خالد اسحٰق نے نئی دائر کردہ درخواست میں ہائی کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کی استدعا کی تھی۔
حلف برداری سے انکار
خیال رہے کہ حمزہ شہباز 16 اپریل کو 197 ووٹ لے کر پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، تاہم رواں ہفتے کے اوائل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عمر چیمہ نے حمزہ سے حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کی رپورٹ، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ان کے سامنے پیش کیے گئے حقائق نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں نے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھا ہے کہ وہ اسمبلی سیکریٹری کی رپورٹ، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق پر ان کی رائے طلب کریں تاکہ میں یہ فیصلہ کر سکوں کہ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد کرنی ہے یا نہیں، میں آئین کے دائرہ کار سے باہر کسی چیز کی توثیق نہیں کر سکتا۔
عمر چیمہ کی پریس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ گورنر کو وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
تاہم گورنر نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک آئینی عہدہ رکھتے ہیں اور اسے برقرار رکھیں گے، انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ صرف پاکستان کے صدر کو گورنر کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا اختیار ہے، جو ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
بعد ازاں حمزہ شہباز نے اس معاملے پر لاپور پوئی کورٹ رجوع کرلیا تھا، حمزہ شہباز کی جانب سے حلف برداری کا حکم جاری کرنے کی درخواست 2 بار دائر کی گئی تھی، رجسٹرار آفس کی جانب سے پہلی درخواست نامکمل ہونے پر واپس کردی گئی تھی۔
22 اپریل کو عدالت نے حمزہ شہباز کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے صدر پاکستان کو نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لینے کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی، اس لیے ٹی وی چینلز پر ایسی کئی افواہیں چل رہی تھیں کہ سینیٹ چیئرمین یا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی خود اس مقصد کے لیے لاہور پہنچیں گے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی اسلام آباد میں ایوان صدر میں ڈاکٹر علوی سے ملاقات کے بعد صدر کی جانب سے یہ ذمہ داری ادا کرنے کی افواہوں کا رخ تبدیل ہوگیا اور سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ یہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے صادق سنجرانی جلد لاہور پہنچ جائیں گے۔
تاہم یہ اطلاعات بھی اس وقت دم توڑ گئیں جب صدر پاکستان کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل کی جانب سے کہا گیا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کے 22 اپریل کو منظور ہونے والے حکم نامے کے حوالے سے 23 اپریل کو وزیر اعظم آفس سے موصول ہونے والی سمری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق معزز صدر کے زیر غور ہے‘۔
حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے بے چین مسلم لیگ (ن) کے لیے آئینی بحران تاحال برقرار ہے، پارٹی رہنما یہ اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اس وقت چیف ایگزیکٹو اور کابینہ کے بغیر ہے۔