لاہور ہائی کورٹ میں سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کی سرزنش کی جس پر اس نے درخواست واپس لے لی۔
لاہور ہائی کورٹ میں آئینی درخواست ایڈووکیٹ ندیم سرور نے دائر کی تھی۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ چوہدری سرور نے عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کیا تھا جبکہ استعفے میں سابق وزیر اعظم عمران کو مخاطب کیا گیا تھا گورنر کو نہیں، جو کہ آئین کے آرٹیکل 130 (8) کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے ہاتھ سے لکھی تحریر میں گورنر کو مخاطب کر کے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ چوہدری سرور کی جانب سے عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری کو قانونی اختیار کے بغیر قرار دے اور درخواست پر فیصلہ آنے تک حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ چارج لینے سے روکا جائے۔
درخواست کی سماعت کے دران لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے درخواست گزار سے پوچھا کہ اس کا کیس سے کیا تعلق ہے؟ ایڈووکیٹ ندیم سرور نے جواب دیا کہ عثمان بزدار کی جانب سے جمع کرایا گیا استعفیٰ ہاتھ سے لکھا ہوا ہونا ضروری تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ درخواست عدالت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، کیا یہ کوئی جمہوری نظام ہے؟ پورا پاکستان افراتفری کا شکار ہے، کسی میں صبر نہیں ہے۔
چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ملک لٹ رہا ہے، مر رہا ہے، اسے سانس نہیں آرہا، یہاں باتیں ہو رہی ہیں، پورے پاکستان کو نچایا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ 10 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ درخواست خارج کر رہے ہیں، اس پر درخواست گزار نے جج سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے اپنی درخواست واپس لینے کی اجازت دیں۔
عدالت نے پھر جرمانہ عائد کیے بغیر درخواست کو واپس لینے کے باعث خارج کر دیا۔
یاد رہے کہ عثمان بزدار نے 28 مارچ کو اپنا استعفیٰ سابق وزیراعظم عمران خان کو پیش کیا تھا جب اسی روز سینئر اراکین پنجاب اسمبلی کے وفد نے ان کے خلاف پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔
عثمان بزدار کے استعفے کے بعد پی ٹی آئی نے (ق) لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے اپنا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تھا۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا تھا جب پی ٹی آئی کے متعدد اتحادیوں کے اپوزیشن میں شامل ہونے کے پس منظر میں حکمراں جماعت نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل اپنے اتحادیوں کی حمایت کو یقینی بنانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
یکم اپریل کو چوہدری سرور نے عثمان بزدار کا استعفیٰ باضابطہ طور پر منظور کر لیا تھا اور نئے صوبائی چیف ایگزیکٹو کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا، دو دن بعد چوہدری سرور کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ سرفراز چیمہ کو نیا گورنر پنجاب تعینات کردیا گیا تھا۔
ہفتے کے آخر میں حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران 197 ووٹ حاصل کرنے کے بعد نیا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا تھا۔
گورنر پنجاب سرفراز چیمہ حمزہ شہباز سے حلف لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر رہے ہیں کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کی رپورٹ، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ان کے سامنے پیش کیے گئے ’حقائق‘ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی آئینی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
گورنر پنجاب نے عثمان بزدار کے استعفے پر قانونی رائے بھی مانگی تھی۔