سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر ریمارکس دیے ہیں کہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی اور پارٹی سے انحراف کینسر کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63۔اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ 1997 میں 13ویں ترمیم کے ذریعے 58 ٹو بی کو ختم کیا گیا تھا لیکن پرویز مشرف نے 2002 میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے 58 ٹو بی کو بحال کیا۔
انہوں نے کہا کہ 2010 میں 18ویں ترمیم کے ذریعے 58 ٹو بی دوبارہ ختم ہوئی اور 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63۔اے کو آئین میں شامل کیا گیا اور اس ترمیم میں پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات تھے، الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63۔اے میں ترمیم کردی گئی اور 2002 کی تبدیلی کے ذریعے پارٹی سربراہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا، 18 ویں ترمیم میں 63۔اے کے تحت اختیارات کو مزید کم کردیا گیا اور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا۔
انہوں نے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم میں الیکشن کمیشن کو تین ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا اور آرٹیکل 63-اے کے ریفرنس پر فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نااہلی کی کتنی میعاد ہوگی وہ آرٹیکل 63-اے میں دے دی گئی ہے، صدارتی ریفرنس آرٹیکل 63-اے کے خلاف نہیں بلکہ ریفرنس صرف آرٹیکل 63-اے کی ذیلی شق چار سے متعلق ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں میعاد نہیں تھی اور اس کی تشریح سپریم کورٹ نے کی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قانون سازوں نے آرٹیکل 63-اے میں منحرف رکن کے لیے نااہلی کا تعین نہیں کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63-اے میں چار مواقع پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کردیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، ایک نااہلی کوئی معمولی بات ہے، آرٹیکل 63-اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں جو حاصل کرنا ہے وہ آرٹیکل 63-اے سے حاصل کریں، ہم نے آئین کو مجموعی طور پر دیکھنا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے، ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹکٹ ہولڈرز اپنے کاغذات نامزدگی میں حلف دیتے ہیں کہ وہ پارٹی پالیسی ڈسپلن کا پابند رہے گا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ رکن کو غلام نہیں بنایا جاسکتا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر کوئی شہری سرکاری نوکری لیتا ہے تو کیا وہ غلام ہوجاتا ہے؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر کوئی رکن خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا آرٹیکل 63-اے میں لکھ دی گئی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، انحراف کرنے والا کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر آتا ہے، کینسر کیا ہوتا ہے، کینسر یہ ہوتا ہے کہ جسم کے سیل کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف کو بھی کینسر کہا گیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارٹی سے انحراف پر نااہلی نہیں ہوتی اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی، کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ بے وفائی سخت لفظ ہے اور اس کا آرٹیکل 63۔اے میں ذکر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی پارٹی رکن مستعفی ہو جائے تو وزیر اعظم کیسے منتخب ہوگا جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ مستعفی رکن الیکشن لڑ کر دوبارہ آسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بے ایمانی ہو یا بے وفائی دونوں کے نتائج آئین میں دیے گئے ہیں، منحرف رکن اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، قانون سازوں نے آرٹیکل 63۔اے میں منحرف رکن کے لیے نااہلی کا تعین نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 5 میں درج ہے کہ ہر جماعت کے رکن کی ریاست سے وفاداری لازم ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63۔اے کا مقصد پارٹی سے دفاداری کو یقینی بنانا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر چیز، ہر جماعت کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے، اگر کوئی شخص بدیانتی پر نااہل ہو جائے تو وہ اگلے الیکشن کے لیے بھی نااہل ہو جاتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ کوالی فیکیشن اور ڈی کوالی فیکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں، اگر بے وفائی اور بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا۔
فاروق ایچ نائیک نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ وفاداری صرف بادشاہت میں ہوتی ہے، اگر یہ مان بھی لیں کہ رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا، عوام کو فیصلہ کرنے دیں کس کو منتخب کرنا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انحراف پر تاحیات نااہل نہیں کرسکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتیں، آزاد کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔
اتحادی جماعتوں کے وکیل نے کہا کہ عدالت گھوڑے اور گدھے کو ایک نہیں کر سکتی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ واضح کریں کہ گدھا کون ہے اور گھوڑا کون۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہر بات ماننے کا حلف نہیں اٹھاتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں آزاد اراکین ہونے ہی نہیں چاہیے، چند اراکین کے آزاد ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ منحرف اراکین ڈی سیٹ ہوتے لیکن نااہل نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63۔اے کا مستقبل یہ بھی ہے کہ پارٹی معاف کردے، 1998 سے آج تک یہ آرٹیکل صرف ایک کیس میں آیا ہے، اس کا مطلب ہے پارٹی سربراہ نے اس آرٹیکل کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اس کی کیا وجہ ہے پارٹی سے انحراف کرنے والوں کو واپس لیا جاتا ہے، اس کی وجہ سیاست میں لچک ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے اس پر جواب میں کہا کہ سیاست میں سخت گیری سے انتشار پھیلتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ یہ بتادیں کہ اگر انحراف کرے تو ڈی سیٹ کے بعد رکن ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ انحراف سے ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے، انحراف کرنے والے کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو سراہتے ہوئے کہا کہ اپ نے بڑے اچھے دلائل دیے اور بہت سارے گرے ایریاز کو کلیئر کیا ہے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے مؤقف اپنایا کہ پیسے دے کر ووٹ خریدنے والے اراکین سے استعفے بھی دلوا سکتے ہیں اور سیاسی معاملے میں عدالت کو بلاوجہ ملوث کیا جارہا ہے۔
سلمان طالب الدین نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کی ٹائمنگ بہت مشکوک ہے، منحرف اراکین پر 62 ون ایف لگنے کا مطلب آرٹیکل 63-اے ختم ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63۔اے میچور جمہوریت کی جانب ایک قدم ہے، یہ آرٹیکل کہتا ہے واپس عوام میں جاؤ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63۔اے کے تحت سپریم کورٹ اپیل میں کیا فیصلہ کر سکتی ہے، ایک سوال ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دیا گیا یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ پارٹی سے انحراف ہوا، اگر پالیسی کے خلاف ووٹ دے دیا تو عدالت کسی چیز کا تعین کرے گی۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ کل عدالت کے ان سوالات کے جوابات دوں گا۔
سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔