نئی حکومت کا بجلی اور ایندھن پر سبسڈی ختم نہ کرنے کا فیصلہ

پاکستان کی نئی حکومت نے بجلی اور ایندھن پر اربوں روپے کی سبسڈی فی الحال ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند روز پہلے اقتدار میں آنے والے شہباز شریف کو خطرہ ہے کہ اس فیصلے سے شدید عوامی ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔

عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے باوجود سابق وزیر اعظم عمران خان نے فروری میں بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان حکومت کے اس فیصلے سے عوام کو تو ریلیف ملا لیکن حکومتی خزانے سے تقریبا 373 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ملک مزید یہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ اس اہلکار کے مطابق اس سبسڈی کی وجہ سے آئی ایم ایف کا مالی امدادی پروگرام بھی خطرے میں ہے کیوں کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط کے بالکل برعکس ہے۔

گزشتہ روز پاکستان میں تیل اور گیس کی ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ اسے پیٹرول کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دینا چاہیے۔ اوگرا کی اس تجویز پر شہباز شریف حکومت نے داخلی مشاورت کا اعلان کیا تھا اور اس داخلی مشاورت کے بعد بجلی اور پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جمعے کی شام اسلام آباد میں نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا، ”میں نے عوام کے مفاد میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ابھی انہیں حکومت میں آئے فقط تین دن ہوئے ہیں اور اس اقدام سے عوام انہیں کوسیں گے۔ قبل ازیں ملکی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ سبسڈی جاری رہی تو ملکی مالیاتی خسارہ بہت بڑھ سکتا ہے۔

مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد تک

پاکستانی وزارت خزانہ کے سیکرٹری حامد یعقوب شیخ، جو ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں پبلک سبسڈی کا فیصلہ ریاست کے لیے مزید مالی خسارے کا سبب بنے گا۔ انہوں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ”توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے ریلیف پیکج ایک ایسا اقدام ثابت ہو گا، جس کا پاکستان فی الحال متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘

حامد یعقوب شیخ کے مطابق، ”اس ریلیف پیکج کو یا تو منسوخ کرنا پڑے گا، یا پھر اس کی موجودگی میں دیگر ریاستی اخراجات میں اسی تناسب سے کمی کرنا ہو گی، تاکہ پاکستان اپنے لیے اس بنیادی مالیاتی توازن کے حصول کو یقینی بنا سکے، جس کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے ہی وعدہ کیا جا چکا ہے۔‘‘

مالیاتی ماہرین کے مطابق فی الحال شہباز حکومت نے عمران خان کے احتجاجی جلسوں اور عوامی ردعمل کی وجہ سے سبسڈی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن آئندہ کچھ عرصے میں حکومت بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کر دے گی۔

قیمتوں میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟

ایک سرکاری اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ نئی حکومت کو ڈیزل کی قیمتوں میں تقریبا 35 فیصد اضافہ کرنا پڑے گا یعنی 144 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر اس کی قیمت 195 روپے فی لیٹر کرنا ہو گی۔ اگر اس میں لیویز اور ٹیکس کو شامل کیا جائے تو فی لیٹر قیمت  264 روپے فی لیٹر تک جائے گی۔

پٹرول کی اس وقت فی لیٹر قیمت تقریباﹰ 150 روپے ہے۔ اس میں 14 فیصد اضافہ کرتے ہوئے فی لیٹر قیمت 171 روپے کرنا ہو گی اور اگر اس میں لیویز اور ٹیکس شامل کیا گیا تو پٹرول کی فی لیٹر قیمت 57 فیصد اضافے کے ساتھ 235 روپے فی لیٹر تک جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں