اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روک دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس اور کارکنوں کے کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے رہنما علی نواز کی جانب سے پارٹی کے سوشل میڈیا ایکٹیویٹیس کے گھروں پر چھاپوں کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان اپنے وکیل فیصل چوہدری کے ذریعے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے عدالت نے ایف آئی اے کو کس طرح ڈیل کیا، جس پر وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ دیر آید درست آید اگر ہماری مانی جاتی تو یہ نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ کل جو یہ سب کروا رہے تھے وہ آج ان کے ساتھ ہیں، شاید وہ آج ان کے ساتھ ہو گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا مسکراتے ہوئے فیصل چوہدری سے مکالمہ ہوا کہا کہ یہ ذومعنی سی بات آپ نے کی ہے۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جب حکومت تبدیل ہوئی تو ہمارے کارکنوں کے خلاف کاروائیاں شروع ہو گئیں، سوشل میڈیا ہیڈ ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر پر ایف آئی اے نے دو چھاپے مارے۔

انہوں نے کہا کہ کیا الزام ہے کیا ایف آئی آر ہے کس قانون کے تحت چھاپہ ہوا کچھ پتہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر یہ درخواست آپ رات کو بھی لے آتے تو ہم سن لیتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور حکم دیا کہ ایف آئی اے کسی طور بھی سوشل میڈیا کارکنوں کو ہراساں نہ کرے۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کا حکم بھی دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ہراساں کرنے سے روک دیا اور سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کردیا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘تمام سوشل میڈیا پر حق اور سچ کی بات کرنے والوں کو تحریک انصاف کی پٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر مبارک باد’۔

قبل ازیں علی نواز اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد پولیس، آئی جی پنجاب، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی ایف آئی اے سائبر ونگ کوفریق بنایا تھا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں کے گھروں پر غیر قانونی چھاپے مارے جارہے ہیں، کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی گھروالوں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنان کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں اور حکمران جماعت کی ایما پر کارکنوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔

علی نواز اعوان نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جس سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پارٹی کارکنوں کو غیر قانونی طور پر ہراساں کرنا سے روکا جائے، سیاسی بنیاد پر چادر اور چار دیواری پامال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جائے، ایف آئی اے اور پولیس کی کارروائیوں کو غیر قانونی طور دیا جائے۔

خیال رہے کہ ایف آئی اے نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سکبدوش کیے جانے کے بعد فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم چلانے کے الزام میں سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

ایف آئی اے نے پنجاب بھر سے کم از کم ان 8 افراد کو گرفتار کیا تھا، جن کے بارے میں شبہہ تھا کہ وہ فوج کے خلاف مہم میں ملوث تھے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم نے فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے کے الزام کے سلسلے میں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گجرات سمیت پنجاب کے مختلف حصوں سے تقریباً 8 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

اس سے قبل پاک فوج کے فارمیشنز کے اجلاس میں سوشل میڈیا پر ادارے پر کی جانے والی حالیہ تنقید کا بھی نوٹس لیا گیا تھا۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فورم نے کچھ حلقوں کی جانب سے پاک فوج کو بدنام کرنے اور ادارے اور معاشرے کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے حالیہ پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں