صدر مملکت عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خط لکھ دیا۔
خط میں الیکشن کمیشن کو آئین پاکستان کے تحت 3اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کا کہا گیا ہے۔اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 (اے) اور آرٹیکل 224 کی شق 2 کے تحت صدر مملکت عام انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کریں گے اور یہ تاریخ اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن سے زائد نہ ہو۔خط میں کہا گیا کہ آئین کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔
واضح رہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کردی تھی جس کے بعد وزیراعظم نے 3 اپریل کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
ایوان صدر سیکریٹریٹ کی جانب سے یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت میں بھیجا گیا کہ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مختلف قانونی رکاوٹوں اور طریقہ کار کے چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے تین ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے سے معذوری کا اظہار کیا تھا۔
ایک سینیئر عہدیدار نے میڈیا کو بتایا تھا کہ عام انتخابات کی تیاریوں میں تقریباً 6 ماہ لگیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حلقوں کی تازہ حد بندی بالخصوص خیبر پختونخوا میں جہاں 26ویں ترمیم کے تحت نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا اور ضلع و حلقہ وار انتخابی فہرستوں کو ہم آہنگ کرنا بڑے چیلنجز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ حلقہ بندی ایک وقت طلب کام ہے جہاں قانون صرف اعتراضات کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت فراہم کرتا ہے جبکہ انہیں حل کرنے کے لیے مزید ایک ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
عہدیدار نے کہا تھا کہ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے، اس کے بعد ووٹرز کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنا ایک اور بڑا کام ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مواد کی خریداری، بیلٹ پیپرز کا انتظام اور پولنگ عملے کا تقرر اور تربیت بھی چیلنجز میں شامل ہیں۔
تاہم گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کرنے کی خبر پر تردید سامنے آئی تھی۔
دوسری جانب میڈیا میں آج شائع رپورٹ کے مطابق انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں کے معاملے پر بھی الیکشن کمیشن دباؤ کا شکار ہے اور کمیشن نے کم سے کم وقت میں حلقہ بندیوں کے آپشن پر غور شروع کردیا ہے۔
الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 17 (2) ای سی پی کو اختیار دیتا ہے کہ ہر مردم شماری کے باضابطہ طور پر مطلع ہونے کے بعد حلقوں کی حد بندی کی جائے، موجودہ حد بندیاں 2017 کی مردم شماری کے نتائج کے پیش نظر کی گئی ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں مردم شماری کے حتمی نتائج شائع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں نہیں کی گئیں، اس کی ایک وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے 2023 میں مردم شماری کروانے کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنی جلدی حلقہ بندی کا عمل مکمل کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ حل میں سے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حد بندی کی مشق کے لیے ٹائم لائنز میں رد و بدل ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون میں اعتراضات اٹھانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد سماعت کا عمل ہوگا، اگر اعتراضات کو ایک ساتھ سنا جائے تو اس سے وقت کی بچت ہو سکتی ہے۔