اشیا کی بڑھتی عالمی قیمتوں کے سبب معیشت کو نمو کے چیلنجز کا سامنا

سال 22-2021 میں سود کی ادائیگیوں، ویکسینز اور سبسڈیز کے لیے اخراجات حد سے متجاوز ہونے کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ نے بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں اور سست عالمی اقتصادی صورتحال سمیت نمو کے امکانات کو درپیش چیلنجوں کو اجاگر کیا جس کے نتیجے میں مالی سال کے بقیہ حصے میں افراط زر کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ متنازع حالات میں اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے سیکشن 34(1) کے تحت قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے وسط سال کے بجٹ کے جائزے 22-2021 کا بنیادی نکتہ ہےیہ رپورٹ منگل کو جاری کی گئی، سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر 2021) میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 9.1ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 5.7 فیصد) ہونے کے سبب وسط سال کے جائزے میں خاص طور پر کم آمدنی کی وجہ سے پیٹرولیم لیوی اور گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس نے غیر ٹیکس محصولات میں بڑے پیمانے پر گراوٹ کی نشاندہی کی۔

اس کے نتیجے میں وزارت خزانہ نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں نمایاں کٹوتیوں کی تصدیق کی۔

مذکورہ جائزے میں نوٹ کیا گیا کہ سود کی بڑھتی ہوئی ادائیگیوں، کووڈ سے متعلقہ اخراجات، توانائی کی سبسڈیز، سوشل سیفٹی نیٹ اخراجات اور سول حکومتوں کو چلانے کی وجہ سے موجودہ اخراجات میں اضافہ متوقع ہے، تاہم تخمینہ سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔

وزارت نے کہا کہ بنیادی میکرو اکنامک اشاریوں کے رجحان نے مالی سال 22 میں نمو کے لیے ایک امید افزا منظرنامہ فراہم کیا اور یہ توقع ہے کہ شرح نمو 4.8 فیصد کے ہدف سے زائد رہے گی اور درمیانی مدت میں اپنی رفتار کو برقرار رکھے گی۔

تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ ایسے چیلنجز ہیں جو ترقی کے امکانات کو متاثر کر سکتے ہیں جس میں عالمی سطح پر تیل اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی شامل ہے اور توانائی اور غیر توانائی کی اشیا کے مسلسل بڑھتے ہوئے درآمدی حجم کی وجہ سے ملکی افراطِ زر اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

کووڈ-19 کی نئی اقسام کو عالمی نمو کے لیے ممکنہ منفی خطرہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے اثرات پاکستان کی معیشت کے لیے مزید چیلنجز کا باعث بن سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں