حکومت سے امید تھی کہ ہمارے پاس حکومت میں رہنے کا جواز رہنے دیتی، خالد مقبول

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت سے یہ امید تھی کہ کم از کم ہمارے پاس حکومت میں رہنے کا جواز تو رہنے دیتی، اگر ہمیں لگے کہ بہت سارے معاملات میں وزیر اعظم کے پاس اختیار نہیں تو ایسی جمہوریت اور حکومت کا کیا فائدہ۔

کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز پر سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم مولانا فضل الرحمٰن کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان کی رائے کی روشنی میں مشاورت کے ساتھ فیصلہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن خوش نصیب ہے کہ انہیں حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بھی ان حالات کا سامنا نہیں جن حالات کا ہمیں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ہے، اپوزیشن جماعتوں کے کارکن لاپتا نہیں، ان کے دفاتر کھلے ہوئے ہیں، انہیں آزادانہ سیاست کرنے کی اجازت ہے جبکہ ہمیں حکومت میں ہوتے ہوئے مشکلات کا سامنا ہے، ہمارے کارکن لاپتا ہیں، ہمارے دفاتر بند ہیں، ہمارے لیے ملک میں سیاست کرنے کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی ایم کیو ایم مرکز آمد سے ہمیں کافی حوصلہ ملا ہے، ہمیں کچھ سوچنے کا موقع ملا ہے، ایک سیاسی جماعت اور قوم کی حیثیت سے جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں اس کی 50 سالہ پرانی داستان ہے جس کو یہاں دہرانا میں مناسب نہیں سمجھتا جس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران ہمیں سیاست کرنے نہیں دی جارہی، ہم دیوار سے لگائے نہیں گئے بلکہ ہمیں دیوار میں چنوا دیا گیا ہے اور جیسے ہی ہمیں لگے گا کہ ہمیں سیاست کرنے کی آزادی مل رہی ہے ہم اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت سے گلہ ہے، حکومت سے یہ امید تھی کہ کم از کم ہمارے پاس حکومت میں رہنے کا جواز تو رہنے دیتی، اگر ہمیں پتا لگے کہ بہت سارے معاملات میں وزیر اعظم کے پاس اختیار ہی نہیں تو پھر ایسی جمہوریت اور حکومت کا کیا فائدہ جس کے ثمرات کا لوگوں کو فائدہ ہی نہیں ہو، اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ آج پاکستان جن مشکلات میں کھڑا ہے، فضل الرحمٰن کے تجربات ان مشکلات کے خاتمے میں کردار ادا کریں گے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہے، حکومت کے تمام اتحادیوں سے ہمارے رابطے ہیں، ہماری بات چیت چل رہی ہے، پی ڈی ایم اور ایم کیو ایم کے مؤقف میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، تاہم ایم کیو ایم کو باضابطہ ہماری حمایت کرنے میں ایک دو روز اور لگیں گے لیکن میں ایم کیو ایم کے مرکز سے مطمئن ہو کر جا رہا ہوں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس بات کا فیصلہ تو ہو چکا کہ حکومت کے حلیف اب ان کے اتحادی نہیں رہے، وزیر اعظم عمران خان اب مکمل طور پر تنہا ہوچکے ہیں۔

سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ جس طرح کی وزیر اعظم، ان کے وزرا اور جماعت کے لوگ جلسوں میں اور میڈیا پر زبان استعمال کر رہے ہیں وہ زبان کوئی شریف آدمی استعمال نہیں کرتا، ان حکمرانوں کے بارے میں اپوزیشن کی رائے صحیح تھی کہ یہ لوگ ان مناصب پر فائز رہنے کے لائق نہیں اور ان کا ان مناصب پر موجود رہنا ان عہدوں کی بے توقیری ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے حکمران امر بالمعروف کی بات کرتے ہیں مگر انہیں یہ لفظ بھی ٹھیک سے بولنا نہیں آتا، مجھے حیرت ہے کہ جو لوگ سرتاپا ان باتوں کے منکر ہیں، وہ اپنے آپ کو نیک کہہ رہے ہیں مگر انہیں شرم نہیں آتی۔

سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ ان منکروں کا ساتھ دینے کے باعث اتحادیوں پر گناہوں کا کفارہ ادا کرنا واجب ہوچکا، اب تلافی ہوگی اور قوم کو ان حکمرانوں سے نجات ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بدترین مہنگائی، بے روزگاری ہے، اس کے باجود یہ جلسے کر رہے ہیں، یہ بہت ہمت اور حیرت کی بات ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ او آئی سی اجلاس کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہم لانگ مارچ کا اعلان کر چکے تھے، اس کے بعد ہم اس حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکے تھے، اب وزیراعظم قوم کا نمائندہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت باہر کے مہمانوں کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ایسے وقت میں ہم او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والوں کو خوش آمید کہتے ہیں، وہ حکومت کے نہیں، پاکستان کے اور قوم کے مہمان ہیں، ہم مہمانوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

سرابراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے مہمانوں کی وجہ سے ہم نے 23 مارچ کے بجائے اپنے لانگ مارچ کے قافلوں کو 25 مارچ کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت دی ہے، پورے ملک سے لاکھوں لوگ لانگ مارچ میں آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا ک اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا وہ کونسا بدبخت شہری ہے جو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوگا اور ملک کی تباہی میں عمران خان کا ساتھ دینے کا ثبوت دے گا۔

انہوں نے کہا کہ کون بدبخت ہوگا اور کیسے ممکن ہوگا کہ کوئی شخص ان حالات میں جبکہ ملک ڈوب چکا، پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی، مرکزی بینک پاکستان کے دائرہ اختیار سے نکل چکا، سالانہ بجٹ کا تخمینہ صفر سے نیچے جاچکا، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 185 سے زیادہ بڑھ چکا، مہنگائی کے باعث راشن، دوائیں، گھی، تیل عوام کی قوت خرید سے باہر ہوچکا تو ان حالات میں کون ان حکمرانوں کا ساتھ دے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں