تحریک عدم اعتماد: پی ٹی آئی کے 13اراکین اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری

پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں مبینہ طور پر پارٹی سے منحرف ہونے والے اپنی جماعت کے اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کردیے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 13 منحرف اراکین قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔شوکاز نوٹسز پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کے دستخط کے بعد جاری کیے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین نور عالم خان، ڈاکٹر محمد افضل ڈاھنڈہ، نواب شیر، راجا ریاض، احمد حسین ڈیہڑ ، رانا محمد قاسم نون، محمد عبدالغفار وٹو ، عامر طلال گوپانگ، باسط احمد سلطان، وجیہ قمر، رمیش کمار ، نزہت پٹھان، ریاض مزاری کو شوکاز جاری کیے گئے ہیں۔

شوکاز نوٹس میں منحرف ارکان سے وضاحت طلب کرتے ہوئے انہیں 7 روز کے اندر معافی مانگ کر پارٹی میں غیرمشروط طور پر واپس آنے کی مہلت دی گئی ہے۔

نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ 7 روز تک جواب نہ دینے اور واپس نہ آنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ابتدائی اعلامیے میں 14 اراکین کے نام دیے گئے تھے تاہم بعد میں وضاحت کرتے ہوئے 13 اراکین کو شوکاز نوٹس بھیجنے کی تصدیق کردی۔

یاد رہے تحریک عدم اعتماد کی بازگشت کے بعد سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی سندھ ہاؤس میں موجودگی کی باتیں کی جارہی تھی۔

تاہم گزشتہ روز ٹی وی چینل کی فوٹیج میں پی ٹی آئی کے منحرف اسمبلی نورعالم خان اور باسط بخاری سمیت دیگر کئی اراکین کو دکھایا گیا جو ان دنوں وہاں موجود ہیں اور وہ واضح عندیا دے چکے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد پر کس کو ووٹ دیں گے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے راجاریاض نے کہا تھا کہ ‘ہم اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے، ہمارا خان صاحب سے اختلاف ہے اس لیے ووٹ اپنے ضمیر کے مطابق دیں گے’۔

منحرف اراکین کو 20 کروڑ رشوت دینے کے تاثر پر راجا ریاض نے کہا تھا کہ ‘میں ایک روپے بھی وصول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا’۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام میں کہا تھا کہ ‘ایکشن کے ڈر سے لوٹے ظاہر ہونا شروع ہو گئے، پچھلے 5 لوگوں کو 15 سے 20 کروڑ ملے، خچروں اور گھوڑوں کی منڈیاں لگ گئیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘باضمیر ہوتے تو استعفیٰ دیتے، اسپیکر کو ان ضمیر فروشوں کو تاعمر نااہل قدر دینے کی کارروائی کرنی چاہیے’۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سوات میں جلسے سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس ہے، لوگوں کے ضمیر خریدنے اور ہارس ٹریڈنگ کے لیے یہ لوگ سندھ ہاؤس میں نوٹوں کی بوریاں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

قبل ازیں اپوزیشن کی جانب سے بارہا دعویٰ کیا جا چکا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ان کے پاس 172 سے زائد ووٹ ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 163 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ سے رائے مانگی جائے گی کہ جب ایک پارٹی کے اراکین واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں