آبی تنازعات: سندھ طاس معاہدہ اور ماحولیاتی نکات پر بحث

آبی ماہرین اور سرکاری افسران پر مشتمل ایک بھارتی وفد کل پاکستان پہنچے گا۔ یہ وفد پاکستان اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے آبی تنازعات پر بات چیت کرے گا۔

پاکستانی ابی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ آبی تنازعات اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک پاکستان سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ سے بات چیت نہ کرے جو یکطرفہ تھا اور نئی دہلی کے مفاد میں تھا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔

ان تنازعات پر بات چیت ایک سالانہ اجلاس میں ہوتی ہے جس کو منعقد کرنے کے دونوں ممالک سندھ طاس معاہدے کے تحت پابند ہیں۔ یہ 117 واں اجلاس انڈس کمیشن کے زیر اہتمام ہوگا۔

پاکستانی کی شکایات

آبی امور کے ماہر اور قائداعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر عارف محمود نے میڈیا کو بتایا، “اسلام آباد کا یہ شکوہ ہے کہ انہیں سیلاب کے حوالے سے وقت پر وارننگ نہیں دی جاتی، اس کے علاوہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی ایسے پروجیکٹ ہیں جس سے پاکستان میں پانی کا بہاؤ کم ہو سکتا ہے، تاہم سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت کوئی ایسا پروجیکٹ نہیں بنا سکتا جس کی وجہ سے اس کو پانی کا ذخیرہ کرنا پڑے، اگر یہ ذخیرہ کرنا بھی ہے تو اس کی مقدار بہت محدود ہے۔”

ڈاکٹر عارف محمود کا کہنا تھا کہ اب پاکستان کی سب سے بڑی شکایت ماحولیات سے متعلق ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان دنیا کا وہ پانچواں ملک ہے جو سب سے زیادہ عالمی حدت اور بدلتے ہوئے موسم سے متاثر ہو رہا ہے۔

انہوں نے میڈیاکو بتایا، “بھارت سے آنے والا گند اور صنعتی فضلہ راوی کو برباد کر رہا ہے جبکہ چناب کی صورتحال بھی بہت خراب ہے، جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا اس وقت ماحولیات کا مسئلہ اتنا اہم نہیں تھا لیکن آج یہ عالمی صورتحال اختیار کر گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عارف محمود کے مطابق بھارت نئے منظر نامے میں کم از کم راوی میں اتنا پانی چھوڑے کہ ماحولیات کو ہونے والے نقصان کا کسی حد تک ازالہ کیا جا سکے۔

سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ بات چیت

پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ سے بات چیت شروع کرے۔ انہوں نےمیڈیا کو بتایا، “یقینا یہ ایک مشکل کام ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پاکستان کی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی ہے اور اس معاہدے کو دوبارہ سے اگر بات چیت کے لئے نہیں کھولا جاتا تو پاکستان کی پوزیشن اسی طرح کمزور رہے گی لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاہدے کی شرائط کو دوبارہ سے بات چیت کے ذریعے بدلہ جائے۔”

پاکستان کا بہت نقصان ہوا

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس نے میڈیاکو بتایا، “سندھ طاس معاہدے میں ہم نے عالمی بینک کے دباؤ میں مذاکرات کیے کیونکہ ہمیں ان سے قرضہ لینا تھا اور اس لیے عالمی بینک نے ساری شرائط ایسی رکھیں جو بھارت کے مفادات میں تھی، ہم نے بھارت کو وہ بھی دے دیا جو اس نے نہیں مانگا تھا اس کی وجہ سے ہمارا پانی بہت کم ہوا ہے اور ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا۔”

ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے سے پاکستان یک طرفہ طور پہ نکل سکتا ہے۔ “لیکن مشکل یہ ہے کہ آج بھی ہم عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کرتے ہیں اگر اس معاہدے سے نکلیں گے تو وہ ہمارے خلاف ہو جائیں گے، ہم اس معاہدے سے نکلنے کی جرات نہیں کر سکتے۔”

دوبارہ بات چیت دانشمندی نہیں

ڈاکٹر عارف محمود کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر دوبارہ سے بات چیت کرنا یا اس سے یکطرفہ طور پر نکلنا پاکستان کے لئے بہت تباہ کن ثابت ہوگا۔ “اس معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنا دانشمندی نہیں ہے کیونکہ جس وقت پاکستان نے یہ معاہدہ کیا تھا اس وقت بھارت اتنا مضبوط نہیں تھا اب تو وہ معاشی طور پر بھی بہت مضبوط ہے، عسکری طور پر بھی طاقتور ہے جب کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا بھی خواہاں ہے۔”ڈاکٹر عارف کے مطابق اگر ایسے میں ہم بھارت سے اس معاہدے پر دوبارہ بات چیت کریں گے تو نیا ہونے والا معاہدہ ہر حوالے سے بھارت کے حق میں جائے گا۔ “میرے خیال سے اس معاہدے کی وجہ سے بھارت آبی دہشت گردی سے رکا ہوا ہے، اگر یہ معاہدہ نہیں ہوتا تو بھارت اب تک آبی دہشت گردی کر چکا ہوتا اور پاکستان کی پوری زراعت کا جنازہ نکل چکا ہوتا جو اس معاہدے پر تنقید کرتے ہیں انہیں ذرا یہ بھی حساب کتاب کرنا چاہیے کہ اس معاہدے کے بعد جو ڈیم بنے تو مجموعی طور پر پاکستان میں کاشت کاری کا رقبہ کتنا بڑھا ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں