پاکستان میں کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی یوکرائنی جنگ کا پاکستان پر فوری طور پر تو کوئی نمایاں اثر نہیں ہو گا تاہم اگر یہ جنگ طول پکڑ گئی، تو پاکستان کو مہنگائی اور ایندھن کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جنگ زدہ یوکرائنی علاقوں سے پاکستانیوں کا انخلا
یوکرائن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق تقریباﹰ 625 طلبا سمیت سینکڑوں پاکستانی شہری جنگ زدہ علاقوں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ کییف میں پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار انہیں پولینڈ کے راستے ملک سے نکال کر خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستان بھجوانے کی کوشش میں ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کئی متاثرہ پاکستانیوں کے پیغامات سے لگ رہا ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد کا محصور پاکستانیوں کے لیے قائم کردہ ٹیلی فون ہیلپ لائنز پر رابطہ ہو رہا ہے اور نہ ہی سفارت خانے کے عملے تک رسائی ممکن ہو پا رہی ہے۔
کییف میں پاکستانی سفارت خانے کے جاری کردہ ایک تازہ حقائق نامے کے مطابق یوکرائن میں چار ہزار کے قریب پاکستانی شہری موجود تھے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے، جنہوں نے وہاں شادیاں کر رکھی ہیں۔ یوکرائن میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے الرٹ کیے جانے کے بعد زیادہ تر پاکستانی محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے تھے لیکن اس وقت بھی 625 پاکستانی طلبہ جنگ زدہ علاقوں میں ہیں، جنہیں وہاں سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
انخلا کے حوالے سے متضاد اطلاعات
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جنگ سے متاثرہ یوکرائنی شہر خارکیف سے 70 پاکستانی طلبا کے بحفاظت نکالے جانے کی اطلاع دی ہے۔ ترجمان کے بقول خارکیف یوکرائنی اور روسی افواج کے مابین جنگ کے بڑے میدانوں میں سے ایک ہے اور پاکستانی طلبا کو سفارتی عملہ لوِیو کے ریلوے اسٹیشن پر ریسیو کرے گا۔ یوکرائن میں پاکستان سفارت خانے کے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ لوِیو میں سہولت ڈیسک پر مزید 23 پاکستانی طلبا پہنچے ہیں، جو کییف سمیت یواکرئن کے مختلف شہروں سے وہاں گئے۔
اسی پوسٹ کے نیچے تبصرہ کرتے ہوئے صفی اللہ آصف نامی ایک نوجوان نے لکھا ہے کہ یہ اطلاع درست نہیں ہے اور ”پاکستانی طالب علم اب بھی بمباری والے علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپیل کی کہ پاکستانی طلبا کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جائے۔ شاہ حسین نامی ایک نوجوان نے یوکرائن میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے سے کہا کہ ان طالب علموں کے نام منظر عام پر لائے جائیں، جو ان کے بقول ہیلپ ڈیسک تک پہنچے ہیں۔ بعض پاکستانی شہریوں نے ایمبیسی حکام سے رابطہ نہ ہونے، مقامی ٹرانسپورٹ سسٹم مفلوج ہو جانے کی وجہ سے باہر نہ نکل سکنے اور حکام کی طرف سے ٹرینوں پر سوار نہ ہونے دینے جیسی دشواریوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
یوکرائن سے درآمدات متاثر ہونے کا امکان
پاکستان کے ایک اقتصادی تجزیہ کار خالد محمود رسول نے میڈیاکو بتایا کہ روس اور یوکرائن کی جنگ سے پاکستان پر تین طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اقتصادی طور پر دیکھیں تو جنگ زدہ یوکرائن کے لیے پاکستانی برآمدات چونکہ بہت ہی کم ہیں، اس لیے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن روس اور یوکرائن دنیا میں گندم اورکئی دیگر زرعی اجناس پیدا کرنے والے اہم ممالک ہیں۔ پاکستان یوکرائن سے گندم درآمد کرتا ہے، اس لیے اس جنگ کے سبب پاکستانی درآمدات کسی حد تک متاثر ہو سکتی ہیں۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا خطرہ
اس جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر زرعی اجناس، تیل ، کوئلے اور گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، پاکستان اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتا کیونکہ پاکستان مائع قدرتی گیس، کوئلہ اور تیل درآمد کرتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو مہنگائی کی ایک نئی ممکنہ لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خالد محمود رسول کے بقول گلوبل سپلائی چین متاثر ہونے سے پاکستانی برآمد کنندگان کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور انہیں بحری مال برداری کی لاگت میں اضافے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ پاکستان میں روس کی مدد سے شروع کردہ گیس پائپ لائن سمیت مختلف منصوبوں پر پیش رفت کی رفتار بھی متاثر ہو۔
خالد محمود رسول نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان اپنے لیے خارجہ پالیسی امکانات کو بڑھانے اور اپنی برآمدات کو مختلف عالمی منڈیوں تک پھیلانے کے لیے جو تگ و دو کر رہا تھا، اس جنگ سے پاکستان کی وہ تگ و دو بھی منفی طور پر متاثر ہو گی۔
عمران خان کے دورہ روس سے مغرب ناراض ہو گا؟
اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد کہتے ہیںکہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس سے مغرب کو بہت غلط پیغام ملا ہے اور اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے اور پاکستان کوئی واضح پوزیشن نہیں لیتا، تو پھر امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسا طرز عمل سامنے آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے لے کر برآمدی رعایتوں تک اسلام آباد کو کئی معاملات میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر میجر جنرل (ر) اطہر عباس اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ میڈیا سے خصوصی بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ عوامی سطح پر شاید ایسا تاثر ابھرے، لیکن سفارتی حلقے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پہلے سے طے شدہ دورے نہ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ اس سوال کے جواب میں کہ مغرب پرکافی انحصار کرنے والے پاکستان کے لیے اس جنگ کے حوالے سے غیر جانب دار پوزیشن قائم رکھنا کب تک ممکن ہو گا اور کیا اس پر مغربی دنیا کا کوئی رد عمل نہیں ہو گا، میجر جنرل (ر) اطہر عباس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ سفارت کاروں کی سطح پر اس پر بات چیت ہو لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی بڑا ردعمل آنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا، ”پاکستان کی یہ پوزیشن کہ وہ جنگ کی حمایت نہیں کرتا اور اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہتا، بلکہ تنازعات کو سفارتی سطح پر بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے، کوئی غیر منصفانہ بات نہیں ہے۔‘‘
ادھر وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ روس اور یوکرائن کے مابین عسکری کشیدگی کے دوران عمران خان کا ماسکو کا دورہ امریکا اور روس کے لیے پاکستانی برآمدات کو متاثر نہیں کرے گا۔
دفاعی ساز و سامان کی تجارت بھی مشکلات کا شکار
یوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر اطہر عباس نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان اور یوکرائن کے مابین تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ پاکستان سے وہاں چاول، سبزیاں اور فروٹ جاتے ہیں جبکہ پاکستان وہاں سے دفاعی ساز و سامان اور گندم منگواتا ہے۔ ان کے خیال میں اگر جنگ طویل ہو گئی، تو پاکستان میں یوکرائن سے درآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں تیل کی قلت اور مزید مہنگائی بھی ہو سکتی ہے۔
ادائیگیوں کا توازن خراب ہو جانے کا اندیشہ
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے زرعی اجناس اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے سےافریقی ممالک اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ان تمام ممالک کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اپنے ہاں مالی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
افراط زر میں اضافے کا بھی امکان
پاکستان کے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق روسی یوکرائنی جنگ کے پاکستان پر فوری اثرات کو کوئی امکان نہیں لیکن اگر یہ عسکری تنازعہ طول پکڑ گیا، تو پھر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی افراط زر میں اضافہ ہو گا۔
میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یوکرائن کبھی بھی پاکستانی طلبا کے لیے انتہائی اہم ملک نہیں رہا۔ پاکستانی طلبا انگریزی زبان بولنے والے ممالک میں حصول تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوکرائن میں پاکستانی طلبا کم جاتے ہیں اور عام طور پر وہاں کے بعض تعلیمی اداروں کی ڈگریوں کو پاکستان میں تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر حسن عسکری کے خیال میں ممکن ہے کہ وہاں موجود پاکستانی باشندوں میں سے کئی بظاہر تعلیم حاصل کر رہے مگر دراصل یوکرائن میں کوئی نہ کوئی ملازمت یا کاروبار کر رہے ہوں۔