پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہی رہے گا، ذرائع

پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس پیر اکیس  فروری کو شروع ہوا اور چار مارچ تک جاری رہے گا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان جون تک گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔

عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے پاکستان کو ابھی مزید چار ماہ تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔ پاکستان کے اسٹیٹس میں تبدیلی کا فیصلہ اب آئندہ سیشن میں ہو گا، جو جون 2022ء میں منعقد ہو گا۔

کل پیر سے شروع اس اجلاس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت اور اس کی روک تھام جیسے معاملات میں پاکستان میں ہونے والی اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جس کی بنیاد پر ہی پاکستان کو آئندہ گرے لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ ہو گا۔


ایکشن پلان

ایف اے ٹی ایف کے ابتدائی ایکشن پلان میں 27 نکات شامل تھے، جن میں سے پاکستان نے گزشتہ سال اکتوبر تک 26 نکات پر عمل کیا تھا۔ تاہم جون میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ایک اضافی ایکشن پلان دیا تھا، جس میں منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے مزید سات نکات شامل تھے۔ پاکستان کو دیے گئے دونوں ایکشن پلانز  کے مجموعی طور پر 34 نکات ہیں، جن میں سے 30 نکات پر اکتوبر تک عمل کیا جا چکا تھا۔

ایشیا پیسیفک گروپ نے بھی پاکستان کے مالیاتی نظام میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ لہٰذا پاکستان فی الحال مانیٹرنگ لسٹ میں رہے گا اور ذرائع کے مطابق اسے آخری ہدف کے حصول تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔

پاکستان کن وجوہات کی بنا پر آئندہ بھی گرے لسٹ میں؟

ایف اے ٹی ایف نامی فورس چاہتی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مقدمات کی تحقیقات اور سزاؤں میں شفافیت لائے اور حکومت اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد کردہ 1373 دہشت گردوں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستان نے منی لاندڑنگ کے خلاف قوانین تو بنائے ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے FATF بظاہر مطمئن نہیں۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تمام شدت پسند گروہوں کے سربراہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے اور خاص طور پر سزائیں سنانے کی شرح کو بہتر بنائے۔ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے سینیئر کمانڈروں کو سزائیں دینے کا ہدف بھی پورا کرے۔ ایف اے ٹی ایف کے نئے ایکشن پلان کے مطابق پاکستان کو تحقیقات کے طریقہ کار میں بہتری جبکہ دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کی چھان بین بھی کرنا ہو گی۔ ایف اے ٹی ایف نے ریئل اسٹیٹ، پراپرٹی، جیولرز، اکاؤنٹس کی نگرانی بڑھانے پر بھی زور دیا اور قوانین پر عمل نہ کرنے والوں پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف حکومت پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات سے جب مطمئن ہو گی تو ایک ٹیم کو پاکستان بھیجا جائے گا، جو زمینی حقائق  اور قانون سازی کا جائزہ لے گی۔ اس کے بعد ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا نہ نکالنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

بھارتی میڈیا میں پاکستان کے بلیک لسٹ کیے جانے کے حوالے سے خبریں

ایف اے ٹی ایف کا اجلاس شروع ہونے سے قبل بھارتی میڈیا پاکستان کے بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے امکان بارے خبریں دے رہا تھا۔ پاکستان بھارت کے اس کردار کا معاملہ ایف اے ٹی ایف کے صدر کے سامنے اٹھانے پر بھی غور کر رہا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں متعدد بار الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں مگر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ہمیشہ اس تاثر کو رد کیا جاتا رہا ہے۔ مگر جون 2021ء کے ایف اے ٹی ایف اجلاس کے بعد ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی تھی جب بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے بھارتی کوششوں کا ذکر کیا تھا۔ 18 جولائی 2021 ء کو بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا، ”مودی حکومت نے یہ یقینی بنایا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہی رہے۔‘‘

پاکستانی حکومت اور حکام پر امید

ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کا کہنا تھا، ”ہم نے ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں تمام تکنیکی تقاضوں پر مکمل عمل درآمد کیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ نتیجہ مثبت سمت میں نکلے گا۔‘‘ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالے جانے کے لیے رکھی گئی شرائط پر مکمل عمل درآمد کیا ہے اور غیر قانونی مالی معاملات پر نظر رکھنے والے ادارے کے ارکان کی جانب سے سیاسی سوچ بچار ہی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ سکتی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف نہ صرف قوانین بنائے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں روکنے کے لیے بھی نمایاں اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستانی پارلیمان منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق متعدد قوانین میں ضروری ترامیم کی منظوری بھی دی چکی ہے۔

بارہ رکنی کمیٹی

پاکستانی حکومت نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے 12 رکنی قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کے ممبران میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق تمام اداروں کے سربراہان اور ریگولیٹرز کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی سیکرٹریز برائے خزانہ، امور خارجہ اور داخلہ بھی شامل ہیں۔ ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر کسٹمز، اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈی جی بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی اسٹیک ہولڈرز کے مابین کوآرڈینیشن کے لیے ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ نہ صرف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق متعدد قوانین میں ضروری ترامیم کی خود بھی منظوری دے چکی ہے بلکہ اسی ضمن میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے وفاقی سطح پر 11 جبکہ صوبائی اسمبلیوں سے تین بل بھی منظور کرائے گئے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں روکنے کے لیے بھی اقدامات کے دعوے کیے گئے ہیں۔ حکومت پاکستان ایف اے ٹی ایف کے اس اجلاس سے پاکستان کے لیے اچھی خبر کی امید کر رہی ہے۔ حکومتی بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تقریباﹰ تمام  ایکشن پلانز پر بڑی حد تک عمل کیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف ہے کیا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989ء میں جی ایٹ سمٹ کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے ایما پر پیرس میں عمل میں آیا تھا، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار وسیع کر دیا گیا۔ اس کے اختیارات میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کرنا بھی شامل ہے۔ اس ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔ ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔

امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ دہشت گردی کی فنڈنگ کی  روک تھام کے لیے  بھی مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر 2001ء میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مالی معاونت کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ٹاسک فورس کے سپرد کر دی گئی۔ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں یکساں قوانین لاگو کرانے اور ان پر عمل درآمد کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اس کے ہر رکن ملک میں مالیاتی قوانین کی تعریف یکساں ہو اور ان پر یکساں طور پر عمل بھی کیا جائے تاکہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ سے حاصل کردہ دولت کی نقل و حمل کو مشکل ترین بنا دیا جائے۔

پاکستان کو گرے لسٹ میں کب شامل کیا گیا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو جون 2018ء میں گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہیں؟

ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے اور جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں، ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتی تاہم اس فورس کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ملکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔ اس فورس کی طرف سے مختلف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔ بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے، جہاں متعلقہ قوانین اور ضوابط میں سقم موجود ہوں۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان یہ ہوتا ہے کہ ٹاسک فورس کے رکن ممالک ان پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔ گرے لسٹ میں ان ممالک کو رکھا جاتا ہے، جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کا اعادہ کریں۔ شمالی کوریا اور ایران اس وقت اس فورس کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں، جن پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ گرے لسٹ میں ہو نے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کو بین الاقوامی قرضوں تک محدود رسائی حاصل ہو گی۔ پاکستان اسی لسٹ میں ہے۔

گرے لسٹ سے نکلنے سے پاکستان کو کیا فائدہ اور نہ نکلنے سے کیا نقصان ہو گا؟

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بار بار گرے لسٹ میں شامل رکھنے سے معیشت کو سرمایہ کاری، برآمدات، کاروبار اور حکومتی اخراجات میں کمی کی مد میں ستر ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ گرے لسٹ میں رہنے والے ممالک کے ساتھ لین دین سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں۔ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو ملک کی اقتصادی سمت اور عالمی سطح پر ساکھ دونوں بہتر ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی اور ملک سے متعلق ایک مثبت پیغام دنیا بھر میں جائے گا۔

عالمی سیاست اور پاکستان کے یورپ کے ساتھ تعلقات

بیشتر بین الاقوامی اداروں پر جو سب سے بڑی تنقید کی جاتی ہے، وہ یہی ہے کہ ان اداروں کو طاقت ور ممالک ہمیشہ اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے بین الاقوامی اداروں میں فیصلہ سازی کا انحصار زیادہ تر ان ممالک پر ہوتا ہے، جو فورم کے مستقل رکن ہوتے ہیں۔ یہ ممالک اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بعض اوقات فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی فیصلہ سازی میں بھی 37 رکن ممالک شامل ہے، جن میں بھارت بھی ہے۔  ماہرین کے مطابق پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27 نکاتی ایکشن پلان پر بڑی حد تک عمل تو کر لیا لیکن پاکستان کو جو سفارت کاری کرنا چاہیے تھی، اسلام آباد وہ نہیں کر پایا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے پاکستان مؤثر سفارت کاری میں ناکام  دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ممکنہ طور پر ملک بدر کرنے کے معاملے میں پارلیمنٹ میں بحث شروع کرنے کے تحریک لبیک کے مطالبے پر حکومتی اقدام نے مغربی دارالحکومتوں کے ساتھ پاکستان کے سفارتی فاصلے بڑھا دیے۔ پاکستان اور یورپ کے تعلقات مثالی نہیں ہیں۔ پاکستانی حکومت کا کوئی بھی اعلیٰ سطحی وفد بڑے عرصے سے یورپ کا کوئی دورہ نہیں کر پایا، جس کی وجہ سے یورپی ممالک کے سامنے پاکستان کا نقطہ نظر پیش نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان فرانس کے تعلقات اس وقت اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ اگست 2020ء سے اب تک فرانس میں پاکستان کا کوئی مستقل سفیر بھی تعینات نہیں۔ سابق سفیر معین الحق کی چین میں تعیناتی کے بعد پیرس میں قائم مقام سفیر سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے فرانس میں پاکستانی موقف کو بہتر طور پر پیش نہیں کیا جا سکا۔ فرانس ایف اے ٹی ایف کا ایک مؤثر رکن ملک ہے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی پوزیشن کمزور بنا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی صورتحال کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس لیے اسے یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات پر توجہ دینا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں