ایمانوئل ماکروں کے ساتھ بات چیت کے بعد روسی صدر پوٹن نے کہا کہ وہ یوکرائن معاملے پر سمجھوتے کے لیے تیار ہیں اور فرانسیسی صدر کی تجاویز پر غور کریں گے۔ انہوں نے تاہم یوکرائن کے بحران کے لیے مغرب کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔
روسی صدر ولادیمر پوٹن نے پیر کے روز کریملن میں فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں کے درمیان پانچ گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ ملاقات کے بعد دونوں رہنماوں نے امید ظاہر کی کہ یوکرائن کے بحران پر روس اور مغرب کے درمیان، سرد جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بد ترین، کشیدگی کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔
ماسکو نے یوکرائن کی سرحد پر لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مغرب نواز پڑوسی پر حملہ کرسکتا ہے۔ مغربی ملکوں نے روس کو بار بار وارننگ دی ہے کہ اگر اس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اسے “سنگین نتائج” بھگتنے ہوں گے۔ دوسری طرف ماسکو نے کسی ممکنہ حملے کے منصوبے سے انکار کیا ہے۔
دسمبر میں یوکرائن کے بحران کے آغاز کے بعد سے کسی اہم مغربی رہنما کی پوٹن سے یہ پہلی ملاقات تھی۔
میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ولادیمر پوٹن نے ماسکو آنے کے لیے فرانسیسی رہنما کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ماکروں نے بہت ساری تجاویز پیش کی ہیں جو قابل غور ہیں۔
پوٹن کا کہنا تھا، “ان کے بہت سارے خیالات، تجاویز… آئندہ کے اقدامات کے لیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں، اور ہم ایسے سمجھوتے کرنے کی راہ تلاش کریں گے جو سب کے لیے سود مند ہو۔”
گوکہ پوٹن نے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں لیکن کہا کہ منگل کو ایمانوئل ماکروں کی یوکرائنی صدر ولادو میر زیلنسکی سے ملاقات کے بعد دونوں رہنما فون پر بات کریں گے۔
ٹھوس تجاویز
دونوں صدور نے امید ظاہر کی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور مغرب کے درمیان اب تک کے بدترین بحران کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ماکروں نے کہا کہ انہوں نے روس اور مغرب دونوں کے خدشات دور کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ماکروں کا کہنا تھا، “اگر روس محفوظ نہیں ہے تو یورپی شہری بھی محفوظ نہیں ہیں۔”
نئی فوجی کارروائی نہ کرنے کا عہد
فرانسیسی دفتر صدارت کے مطابق صدر ماکروں نے جو تجاویز پیش کی ہیں ان میں دونوں اطراف سے کوئی نئی فوجی کارروائی نہیں کرنے کا عہد، ایک نئے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا آغاز اور ملک کے مشرق میں ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ کیف کے تنازعے میں امن عمل کی بحالی کی کوششیں شامل ہیں۔
روسی صدر نے ایک بار پھر اس بات کی تردید کی کہ اس کشیدگی کے لیے روس ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ کہنا کہ روس جارحانہ رویہ اختیار کر رہا ہے، غیر منطقی ہے۔”
صدر پوٹن کا کہنا تھا، “یہ ہم نہیں جو نیٹو کی سرحدوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔” ان کا اشارہ مشرقی یورپ میں نیٹو اتحاد کی تعیناتی کی طرف تھا۔
ماسکو میں یہ ملاقات یوکرائن بحران پر ایک ہفتے کی انتہائی سرگرم سفارت کاری کے آغاز پر ہوئی جس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو واشنگٹن میں جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جو بائیڈن نے جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں کہا، “اگر روس نے حملہ کیا تو اس کا مطلب ہے ٹینکوں یا فوجیوں کا یوکرائن میں ہونا، دوبارہ، پھر نورتھ اسٹریم ٹو نہیں رہے گا۔ ہم اسے ختم کر دیں گے۔”
جب ایک صحافی نے جو بائیڈن سے سوال کیا کہ آپ ایسا کیسے کریں گے، کیونکہ یہ منصوبہ اور اس کا کنٹرول جرمنی کے کنٹرول میں ہے، تو صدر بائیڈن نے کہا، “میں وعدہ کرتا ہوں، ہم ایسا کریں گے۔”
ادھر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اعادہ کیا ہے کہ یوکرائن پر روسی حملے کی صورت میں ماسکو پر فوری طور پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔