ملک میں صدارتی نظام کی افواہوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے آئین، وفاقی پارلیمانی نظام میں کسی قسم کی مداخلت اور رد و بدل کو قبول نہیں کریں گے اور ہر شہری اپنے اس آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ یہ مطالعہ پاکستان کا لیکچر نہیں بلکہ ہم پاکستان کی روح کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ پاکستان کے وفاق کے بارے میں کون لوگ اس طرح کی خبریں چلاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کے دورِ حکومتوں کا جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی، نواز شریف کے ادوار حکومت کا جواب دینے کے لیے ہم یہاں موجود ہیں لیکن یہ قوم فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے برسوں کا حساب کس سے مانگے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم یحیٰی خان کے 4 سال، ضیاالحق کے 11 برسوں اور مشرف کے 9 برسوں کا جواب کس سے پوچھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پاکستان کا پارلیمانی نظام ہے جو سیاسی جماعتوں اور قیادت کو عوام کا جوابدہ ٹھہراتا ہے، جبکہ صدارتی نظام ایک ڈکٹیٹیر پیدا کرتا ہے اور کسی بھی لحاظ سے موزوں نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کے پیشِ نظر، عوام میں آئین کے حوالے سے تحفظات پیدا کرنا ملک کے مفاد کے خلاف ہے، اس لیے اس مسئلے پر ایک بحث کرائی جائے اس معاملے کو یکسر ختم ہوجانا چاہیے۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو تجربہ گاہ نہیں بنایا جاسکتا کہ جب کسی کا دل کیا ایک نئے نظام کا فارمولا پیش کردیا، دیگر اقوام نے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل سے ترقی کی اور ہم نے ان تجربوں کی وجہ سے پاکستان کی اس صلاحیت کو ضائع کیا۔
انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، سیاستدان اور بیوروکریسی ملک کر فیصلہ کرے کہ ملک کے لیے ایک ہی راستہ آئین کی سربلندی اور اس کے تحت اپنے کردار کو ادا کرنے کا ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آج ملک جس بحران میں ہے کوئی لیڈر ایسا نہیں نہ ہی کوئی پارٹی ایسی ہے جو تنِ تنہا ملک کو اس سے نکال سکے، پاکستان کو جامع حکومت اور ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے کہ حکومت اپوزیشن ایک گاڑی کے 2 پہیے بن کر نظام کو چلائیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نظام کے جس میں وزیراعظم اپوزیشن سے بات نہیں کرسکتا، دشمن کی فوجیں سرحد پر ہوں اور وہ آرمی چیف کے ساتھ کمیٹی روم تک نہیں آئے یہ پارلیمانی طرزِ عمل نہیں ہے اسے چھوڑ کر ایسا طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے جو آئین کی روح کے مطابق ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔
سندھ گیس برآمد کرنے سے درآمد کرنے والا صوبہ بننے والا ہے، حماد اظہر
قومی اسمبلی کے اجلاس میں کراچی میں گیس کی قلت سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا کہ کراچی شہر 99 فیصد سسٹم گیس پر چلتا ہے، یعنی ان کے گھریلو سے کمرشل استعمال کا ٹیرف 200 سے 500 روپے ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ ایل این جی کا ٹیرف 2500 روپے ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس لیے کراچی کو مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس فراہم کی جاتی ہے جبکہ مقامی گیس کے ذخائر 9 فیصد سالانہ کے حساب سے کم ہورہے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باقی پاکستان کی بہ نسبت سب سے زیادہ تیزی سے سندھ کے گیس کے ذخائر کم ہورہے ہیں اور 2 سے 3 سال بعد سندھ گیس برآمد کرنے والے سے درآمد کرنے والا صوبہ بنے والا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی متعین کردہ ترجیحات میں گھریلو صارفین کو نان ایکسپورٹ انڈسٹری پر فوقیت دی گئی ہے اور ہر سال 1900 صنعتوں کی گیس کاٹ کر گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال یہ مشکل پیش آئی کہ دسمبر میں ان صنعتوں نے عدالت سے حکم امتناع حاصل کرلیا جس کی سماعت زیر التوا ہے، جب پہلا حکم امتناع آیا اس وقت 200 صنعتوں کی گیس منقطع کردی گئی تھی لیکن 1700 کی نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ہر سال کراچی کے گھریلو صارفین کو دی جاتی تھی لیکن عدالتی حکم امتناع کے سبب یہ گیس صنعتیں استعمال کررہی ہیں اور گھریلو صارفین کو دینا ممکن نہیں ہو پارہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کوششش کررہے ہیں کہ حکم امتناع واپس ہوجائے جس سے صورتحال میں بہتری آجائے گی کیوں کہ صنعتوں کی کوشش یہی ہے کہ تاریخ پر تاریخ ملتی جائے اور فروری آجائے جب گیس کی طلب کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اس لیے وہ پورا سیزن حکم امتناع پر گزارنا چاہ رہے ہیں جس سے گھریلو صارفین مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
رکن قومی اسمبلی نے کراچی کے اطراف میں بسائی جانے والی بستیوں میں بلنگ کے مسائل کی جناب توجہ دلائی جس پر حماد اظہر نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ان بستیوں میں بلنگ نہیں ہورہی اور یہاں گیس چوری کی شرح بہت بلند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر ان کچی بستیوں میں بے دریغ اسکیمز دی گئیں اور وہاں جب بلز لینے جائیں تو امن و امان کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس پر حکومت سندھ سے بھی خاطر خواہ تعاون نہیں مل رہا۔
وزیر توانائی نے کہا کہ صرف 3 سال میں سوئی نادرن گیس میں سسٹم لاسسز کو کم کر کے کامیابی کے ساتھ 12 فیصد سے کم کر کے ساڑھے8 فیصد تک لے آئے ہیں لیکن سوئی سدرن میں بہتری معمولی ہے۔
بعد ازاں احسن اقبال کی تقریر کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے آخری سال میں 5.4 فیصد شرح نمو کی خاطر زرِ مبادلہ کے ذخائر کو آدھا کردیا، پاکستان کا قرضہ 7 ارب ڈالر کی رفتار سے بڑھا، گردشی قرض میں ساڑھے 4 سو ارب کا اضافہ ہوا جبکہ آج ہماری 5.37 فیصد شرح صرف 2 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ جب معیشت پر دلائل ختم ہوجائیں تو اس طرح روایتی تقریریں کی جاتی ہیں، ساتویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی رٹے لگائے جاتے ہیں، انہوں نے 5.4 فیصد شرح نمو کے لیے پورے ملک کو دیوالیہ کردیا تھا۔
رانا شمیم کا کیس من پسند فیصلہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش ہے، شاہ محمود قریشی
ایوانِ زیریں کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کل جو رانا شمیم کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اس میں ان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ سابق چیف جج نے توہین عدالت کی گئی ہے اور اس کا مقصد عدالت کے فیصلے کو متاثر کرنا ہے اور یہ عدالتی رائے میں یہ سارا عمل عدالت کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے رچایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے منسوب ہائی پروفائل کیس کی سماعت شروع ہوتی ہے اسی وقت ایک بیانِ حلفی سامنے آجاتا ہے جو یہ اشارہ کررہا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ایک حاضر جج (جسٹس عامر فاروق) کو ہدایات دیں کہ آپ نے فلاں کیس میں یہ کرنا ہے اور فلاح شخصیت کو آپ نے 2018 تک جیل میں رکھنا ہے۔
شاہ محمود نے کہا کہ آپ اس کی ٹائمنگ دیکھیے، واقعہ 3 سال قبل رونما ہوتا ہے لیکن اس کا کہیں ذکر سامنے نہیں آتا، اب جب اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں آتی ہے تو تاخیری حربے استعمال ہوتے ہیں 15 التوا حاصل کیے گئے تا کہ کیس طوالت اختیار کرجائے اور جب یہ اسٹوری سامنے آتی ہے تو کیس یہ شکل اختیار کرلیتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جن جج پر یہ الزام لگایا گیا وہ اس بینچ میں شامل ہی نہیں تھے جو ضمانت کی درخواست کی سماعت کررہا تھا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک آڈیو ٹیپ میڈیا کی زینت بنی اور کئی روز تک موضوع بحث بنی رہی اور فرانزیک کرنے پر ظاہر ہوا کہ ٹیپ حقائق پر مبنی نہیں ہے بلکہ مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر مرتب کی گئی ہے یعنی جعلی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب کو اپنے ماضی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ایک جانب ہم سب آزاد عدلیہ کے دعوے دار ہیں لیکن کہتے کیا ہے اور کرتے کیا ہے، قول اور فعل میں تضاد لمحہ فکریہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا تو سود مند ثابت نہیں ہوا، جب جسٹس قیوم کو ٹیلفون کر کے من پسند فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی وہ سود مند ثابت نہیں ہوئی اور حالیہ تاریخ میں جب مرحوم جج ارشد ملک کو بلیک میل کیا گیا اور بے گناہی کا اعتراف حاصل کرنے کے لیے پورا ماحول بنایا گیا تو وہ بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب رانا شمیم کا بیانِ حلفی کا معاملہ بظاہر عدالت کی کارروائی متاثر کرنے اور ایک خاص سمت میں فیصلے حاصل کرنے کی ایک اور کوشش معلوم ہوتی ہے، یہ فعل بہت خطرناک ہے اور اس کا ہم سب کو نوٹس لینا اور تدارک کرنا چاہیے۔
’ہم نے کووڈ میں 5.37 فیصد شرح نمو حاصل کی‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ تنقید برائے تنقید کی جاتی ہے جس سے ملک میں مایوسی پھیلتی ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے اور اگر اس کا مقصد بہتری جانب گامزن معیشت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں اور اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ جو خرابیاں اور مشکلات ہیں وہ نااہل معاشی ٹیم کی وجہ سے ہیں، درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2 سال میں بہت مشکل فیصلے کیے، کڑوی گولی کھائی، تکلیف دہ فیصلے لیے گئے تا کہ معیشت میں استحکام آئے، لوگوں نے مشکلات اٹھائیں، ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن تیسرے سال میں معیشت استحکام کے بعد بحالی کی جانب گامزن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات میں نہیں بلکہ عالمی بینک، دی اکانومسٹ اور بلوم برگ جیسے ادارے کہہ رہے ہیں جو میری اور آپ کی بولی نہیں بلکہ اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج یہ ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 5.37 فیصد کو چھو رہی ہے، مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا طرہ امتیاز تھا کہ ہم نے 5 فیصد شرح نمو حاصل کی جبکہ آج کووڈ کی وجہ سے معیشتیں سکڑ رہی ہیں ایسے میں ہم نے 5.37 فیصد شرح نمو حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے زرعی شعبے پر جمود طاری تھا آج عالمی بینک کا سروے کہہ رہا ہے کہ اس میں 3.3 فیصد نمو ہوئی، بنیادی طور پر ہم زرعی معاشرہ ہیں، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
’پاکستان میں بلیک میں فروخت ہونے والی یوریا بھی عالمی قیمت سے سستی ہے‘
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں کہ جب عام شہری گیس کی کمی سے متاثر ہورہا ہے اس کے باوجود حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لے کھاد کے پلانٹس کو گیس کی فراہمی جاری رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے یوریا کی پیداوار میں گزشتہ برس کے مقابلے ساڑھے 3 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا، جو ہم کرسکتے تھے ہم نے کیا لیکن کچھ ڈیلر ہیں جو ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں ان کا تدارک ہونا چاہیے اور ہم کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر پاکستان میں یوریا نہ پیدا ہوتی اور ہم درآمد کرتے تو اندازہ ہوتا کہ اس کی قیمت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں اگر یوریا مہنگی بھی فروخت ہورہی ہے تو وہ بین الاقوامی قیمت کے مقابلے سستی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر یوریا کی قیمت 8 سے 9 ہزار روپے فی بوری تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان میں اگر بلیک میں بھی فروخت ہورہی ہے تو 2500 میں مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں کہ جب عام شہری گیس کی کمی سے متاثر ہورہا ہے اس کے باوجود حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لے کھاد کے پلانٹس کو گیس کی فراہمی جاری رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے یوریا کی پیداوار میں گزشتہ برس کے مقابلے ساڑھے 3 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا، جو ہم کرسکتے تھے ہم نے کیا لیکن کچھ ڈیلر ہیں جو ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں ان کا تدارک ہونا چاہیے اور ہم کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر پاکستان میں یوریا نہ پیدا ہوتی اور ہم درآمد کرتے تو اندازہ ہوتا کہ اس کی قیمت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں اگر یوریا مہنگی بھی فروخت ہورہی ہے تو وہ بین الاقوامی قیمت کے مقابلے سستی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر یوریا کی قیمت 8 سے 9 ہزار روپے فی بوری تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان میں اگر بلیک میں بھی فروخت ہورہی ہے تو 2500 میں مل رہی ہے۔
’اپوزیشن نہیں مہنگائی چیلنج ہے‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اس کو بالکل جائز نہیں کہہ رہا لیکن ایک پارٹی احتجاج کی بات کررہی ہے تو جب ہم یہ باتیں کرتے ہیں تو اس کے لیے پاکستان کے عوام اور کسان کو ایک تقابلی جائزہ اپنے سامنے رکھ کر رائے قائم کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ضروری تنقید کرے لیکن جہاں مثبت بات ہو وہاں اس کا اعتراف بھی کرے، جب ہم اور دنیا کہتی ہے ریکارڈ برآمدات ہوئی تو اس کا ذکر نہیں کرتے، ریکارڈ ترسیلات زر کا ذکر نہیں کریں گے، ٹیکس کلیکشن میں بہتری کا ذکر نہیں کرتے اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تجزیے سیاسی ہیں حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہمارا چیلنج اپوزیشن نہیں ہے، مہنگائی ہمارا چیلنج ہے، یہ سو جتن کرلیں ہمیں کوئی گھبراہٹ نہیں، ہم سیاسی انداز میں ان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن مہنگائی چیلنج ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے ایک مرتبہ پھر مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کے اضافے کو قرار دیا اور دنیا کے دیگر ممالک کی معیشت میں آنے والے سکڑاؤ کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس کے ذمہ دار بھی ہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتنا حوصلہ ہماری اپوزیشن میں نہیں کہ اگر ہماری قرض سے جی ڈی پی کی شرح 83.3 فیصد سے گر کر 71.3 فیصد ہوگئی ہے تو اس کا ذکر نہیں کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں کی فی کس آمدن 1457 ڈالر سے بڑھ کر 1666ڈالر ہوگئی ہے لیکن اس کا ذکر کرنے پر سانپ سونگھ جاتا ہے، سناٹا چھا جاتا ہے۔
آج وزیر خارجہ نے متبادل قیادت کی حیثیت سے اپنی رونمائی کی، احسن اقبال
وفاقی وزرا کی تقاریر کے جواب میں احسن اقبال نے ایک بار پھر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ کے لیے ایک توجہ دلاؤ نوٹس تھا لیکن ان میں یہ جرأت نہیں کہ ہزاروں پاکستانی طلبہ و طالبات کے مسئلے کا یہاں بیٹھ کر جواب دیتے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ اپنے کام کے سوا دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑا رہے ہیں اسی لیے شاید پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے اور آج شاید انہوں نے پی ٹی آئی کی متبادل قیادت کی حیثیت سے اپنی رونمائی کی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ جب انہیں نظر آرہا ہے کہ ان کے لیڈر جارہے ہیں تو وہ شاید کسی کو انٹرویو دینا چاہ رہے تھے کہ عمران خان کے علاوہ میں بھی ہوں، مجھ پر توجہ کرلیں میں بھی وزارت عظمیٰ کا امیدوار بن سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی ملک کا وزیر خارجہ اتنا غیر سنجیدہ ہوگا تو اس کی خارجہ پالیسی کا کیا حال ہوگا۔
حکومت کو ٹی وی پر مناظرے کا چیلنج
احسن اقبال نے کہا کہ 5.37 فیصد شرح نمو ری بیسنگ کے نتیجے میں ہوئی ہے، وزیر خارجہ نے یہ کہا کہ پاکستان میں کھاد کا مسئلہ پتا نہیں کیوں ہوگیا جبکہ کھاد کی پیداوار بڑھی ہے، انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ ان کی نگرانی میں ملک سے کھاد اسمگل ہوئی ہے جس کے نتیجے میں آج زمیندار کو ڈی اے پی ساڑھے 9 ہزار روپے مل رہی ہے جو ہمارے دور میں 2400 روپے کی دستیاب تھی۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پنجاب اور وفاقی کی حکومت ان کی ہے لیکن یہ بے بس نظر آتے ہیں ذخیرہ اندوزی کے خلاف کیا کوئی مریخ سے آکر کارروائی کرے گا۔
وزیر خارجہ کی جانب سے اس شکوے کہ اپوزیشن حکومت کی اچھی چیزوں کا اعتراف نہیں کرتی، کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں کی بات کریں گے جو اس مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے تنگ آچکے ہیں، آپ کے اعداد و شمار آپ کے دن تو پھیر چکے ہیں لیکن غریب غریب تر ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس دن ملک کا عام مزدور، محنت کش کہے گا کہ زندگی میں آسودگی آئی ہے اس دن میں ان اعداد و شمار کو تسلیم کروں گا۔
احسن اقبال نے کہا کہ معیشت کو روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود ساڑھے 13 فیصد کرنے کی دو زہریلی گولیاں دی گئیں جس سے مہنگائی کا سونامی آیا اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا، پاکستان کو قرضوں کی جال میں جکڑ دیا ہے، میں ٹی وی پر مناظرے کا چیلنج کرتا ہوں کہ آئیں اور بحث کریں کہ آپ نے معیشت ٹھیک کی ہے یا تباہ کی ہے۔
’صدارتی نظام نے ہمارا آدھا پاکستان ہم سے علیحدہ کرادیا‘
سیکریٹری جنرل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پاکستان میں پتا نہیں کون بار بار یہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ پارلیمانی نظام میں یہ ہوگیا ہے، صدارتی نظام لے کر آنا چاہیے، ہم 75ویں سال میں ہیں اور اگر اب بھی قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ملک کا کیا نظام ہونا چاہیے اور ملک کو کیسے چلنا چاہئے تو پھر ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1947 میں جب قائد اعظم نے اس کا ڈھانچہ تشکیل دیا تو پارلیمانی نظام قائم کیا جس میں لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے اور 1956 میں پہلے آئین کو فیڈرل پارلیمینٹری ڈھانچے میں بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ایوب خان نے اسے صدارتی نظام میں ڈھالا، جو لوگ صدارتی نظام کی باتیں کرتے ہیں انہیں یہ بتایا چاہتا ہوں کہ جتنا صدارتی نظام پاکستان نے بھگتا ہے شاید اس خطے میں کسی اور ملک نے نہیں بھگتا۔
انہوں نے کہا کہ ایوب خان کے 10سال، یحیٰی خان کے ساڑھے 3 سال، ضیاالحق کے 11 سال اور جنرل مشرف کے 9 سال صدارتی نظام، ان نظاموں نے ہمارا آدھا پاکستان ہم سے علیحدہ کرادیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ یحییٰ خان اپنی صدارت کے لیے شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کو آپس میں لڑاتے رہے، اس نے اپنی صدارت کو بچانے کے پاکستان کو تڑوادیا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسی صدارتی نظام کے ذریعے یہ حادثہ دیکھنا پڑا کہ ہماری اکثریتی آبادی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی کہ ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہا، دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ اگر پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام کو ڈسٹرب نہ کیا جاتا تو مشرقی اور مغربی پاکستان آج بھی متحد ہوتے، شیخ مجیب الرحمٰن کی تقریریں سنیں وہ آخری وقت تک التجا کرتا رہا کہ میں مارشل لا اٹھوانا چاہتا ہوں، اسمبلی کا اجلاس بلالو، میں آج بھی پاکستان کہتا ہوں لیکن یحیٰی خان کی صدارت کی لالچ نے ایسا نہ ہونے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ضیا الحق کے صدارتی دور میں چھوٹے صوبے میں احساس محرومی جنم لیا، پاکستان کو جنگ میں جھونک دیا گیا، کلاشنکوف کلچر آیا، انتہا پسندی آئی پھر مشرف صاحب آئے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا اور اس کے بھی نتائج ہم نے دیکھے، پورے پاکستان خاص کر قبائلی علاقوں نے تباہی دیکھی۔