چین نے امریکا کو ایران پر یک طرفہ پابندیوں کے مخالف کا بھرپور جواب دیتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے 25 سالہ طویل تعاون کے معاہدے کے آغاز کا اعلان کردیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چین کے صوبے جیانگسو کے شہر ووکسی میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے موقع پر چینی وزیرخارجہ وانگ یی نے ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں کی بھی حمایت کی۔
چینی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر مطابق وانگ یی اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات جاری کی گئیں۔
وانگ یی نے کہا کہ ایران کو درپیش مشکلات کی بنیادی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے کیونکہ 2015 میں طے پانے والے اہم طاقتوں کے معاہدے سے امریکا یک طرفہ طور پر دستبردار ہوا تھا۔
معاہدے کی شرائط کے معاہدے عالمی سطح پر معاشی پابندیاں ہٹانے کے جواب میں ایران کو اپنا جوہری منصوبے محدود کرنا تھا۔
چینی وزیرخاجہ اور اسٹیٹ کونسلر وانگ یی نے جوہری معاہدے پر مذاکرات کی بحالی کے لیے چین مکمل حمایت کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین یک طرفہ طور پر ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں، انسانی حقوق سمیت دیگر معاملات کی آڑ میں سیاسی مداخلت اور ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بھی شدید مخالفت کرتا ہے۔
خیال رہے 2018 میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو جوہری سرگرمیوں میں کمی لانے، بلیسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں اثر ورسوخ کم کرنے کی شرائط پر عمل نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے معاہدے سے دستبرداری اور مزید پابندیوں کے اعلان سے ایران کی معیشت پر شدید اثرات پڑے ہیں۔
امریکی اعلان کے بعد ایران نے بتدریج معاہدے کی خلاف ورزی شروع کی تھی اور یورینیم اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں تیزی لانے کے لیے جدید سینٹری فیوجز کی تنصیبات میں اضافہ کیا تھا۔
چین اور ایران دونوں امریکی معاشی پابندیوں کی زد میں ہیں جبکہ دونوں ممالک نے گزشتہ برس مارچ میں 25 سالہ طویل تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔
دونوں ممالک کے معاہدے کے بعد ایران بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بن گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔
تاہم 8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کررہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔
ویانا میں ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کے دورہ تہران کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے جے سی پی او اے کے نام سے معاہدے کی بحالی کے لیے اُمید کی کرن جاگی تھی۔
تاہم مذاکرات جون میں ابراہیم رئیسی کے صدارتی انتخاب جتنے کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔
ایرانی تجزیہ کار سعید لیلاز نے کہا کہ ‘افغانستان سے امریکی انخلا سمیت دیگر علاقائی پیش رفت پر بھی غور کرنا چاہیے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جغرافیائی نقطہ نظر سے ایران اور امریکا کو سمجھوتے کی ضرورت ہے لیکن ہر ایک پہلے قدم کے لیے دوسرے کو آگے کرنا چاہتا ہے’۔
اس کی مثال ایرانی اخبار ‘شارغ’ کے پہلے صفحے پر شائع ہونے والی دو تصاویر ہیں جس میں ایک میں جو بائیڈن اعلان کر رہے ہیں کہ ‘اگر تہران ایسا کرتا ہے تو ہم معاہدے میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں’ جبکہ دوسری تصویر میں ابراہیم رئیسی نے جواب دیا کہ ‘ہمیں امریکا کے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے’۔اقوام متحدہ کا ادارہ جوہری معاہدے کی نگرانی کر رہا ہے اور معاہدے کے ذریعے ایران کو جوہری پروگرام پر سخت کنٹرول کے بدلے پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔