الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے خلاف 2014 سے زیر سماعت ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
منگل کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔درخواست گزار اکبر ایس بابر کے فنانشل ایکسپرٹ ارسلان وردک نے کہا کہ وہ اپنی بات ایک گھنٹے میں مکمل کرلیں گے اور صرف ان اعدادوشمار پر بات کریں گے جو مبہم ہیں۔
ارسلان وردک نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ برطانیہ سے پیسے آئے جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر کوئی تسلیم شدہ حقیقت ہے تو اس کو دہرا کیوں رہے ہیں۔
ارسلان وردک نے کہا کہ کینیڈا سے آنے والی رقم کے بارے میں کسی کو نہیں پتا کہ کس نے دیں، ووٹن کرکٹ لمیٹیڈ سے فنڈز آئے جس کا رجسٹریشن نمبر دے دیا ہے، متحدہ عرب امارات کی ایک اور کمپنی سے 49 ہزار ڈالرز آئے اور ان فنڈز کے حوالے سے پی ٹی آئی نے انکار نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈونرز کی فہرستوں میں تفصیلات نہیں ہیں، پی ٹی آئی کو 13 ممالک سے فنڈز آئے، آسٹریلوی ایجنٹ نے لکھا کہ 41 ہزار ڈالرز کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، پی ٹی آئی چیئرمین آفس میں 2کروڑ کی وصولی ہوئی لیکن ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کو پچاس میں سے 41 بینکوں نے جواب نہیں دیا، ہو سکتا ہے کہ جواب نہ دینے والے بینکوں میں اکاؤنٹس موجود ہوں۔
معاشی ماہر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے آڈٹ کے اصول اور معیار کو نظر انداز کیا، ڈونرز تھرڈ پارٹی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی بنائی ہوئی کمپنیاں ہیں۔
ارسلان وردک کی کی بریفنگ مکمل ہونے پر درخواست گزار اکبر ایس بابر نے کمیشن کے روبرو کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں فنڈنگ کی تفصیلات دے رہی ہے، ہر سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔
سماعت مکمل ہونے پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ دونوں فریقین کا شکریہ ادا کرتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کا کیس مکمل ہوگیا، ہم چاہتے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے کیسز بھی ختم ہوں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہا کہ الیکشن کمیشن ووٹر کا اعتماد بحال اور ملک کو جمہوری طور پر مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تاہم چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ضرورت پڑی تو فریقین کو دوبارہ بلایا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن اصول اور آئین کے مطابق فیصلہ کرے، اکبر ایس بابر
الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوا کہ ممنوعی فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 8سال میں الیکشن کمیشن اور اسکروٹنی کمیٹی کی ملا کر 190 کے قریب پیشیاں ہوئیں، ہمارا مقصد پہلے دن سے یہی تھا کہ ہمیں پاکستان تحریک انصاف کو ایک رول ماڈل اور ایک ایسی سیاسی جماعت بنانا ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے باعث تقلید ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین سال اپنی پارٹی کو بنانے میں اس لیے نہیں لگا دیے لیکن وہ اس لیے نہیں تھے کہ عمران خان کو ہم نے وزیراعظم بنانا ہے، وہ اس لیے نہیں تھا کہ ہم تمام سیاسی برائیاں اپنائیں اور اس میں باقیوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں، ہم نے یہ جنگ اسل یے نہیں لڑی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے اپنے بانی اراکین وہ اس عہد کو لے کر چلے کہ ہمیں مثال بننا ہے اور اس جنگ میں میڈیا نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ الیکشن کمیشن وہ اس تاریخی موقع کو نہیں گنوائے گا، ان کے پاس ثبوت اور دلائل موجود ہیں، وہ کسی سیاسی جماعت کے رہنما کی مقبولیت کو دیکھے بغیر اصول اور آئین کے مطابق فیصلہ دیں۔
فارن فنڈنگ کیس میں اب تک کیا ہوا؟
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں مذکورہ کیس دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔
بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔
فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔
علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
گزشتہ برس یکم اکتوبر کو ای سی پی نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی جانچ پڑتال میں رازداری کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر 4 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کے ذریعے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے اعتراضات مسترد کردیے تھے لیکن پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور نومبر 2019 میں فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
کمیشن نے 2020 غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اپنی اسکروٹنی کمیٹی کی ’ادھوری‘ رپورٹ کو رد کر دیا تھا اور حکم نامے میں کہا تھا کہ رپورٹ مکمل اور جامع نہیں ہے۔
بعدازاں نومبر 2021 میں الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے فنڈز کی آڈٹ رپورٹ جمع کروا دی تھی، مارچ 2019 میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے ڈیڈ لائن بھی ختم ہونے کے 6 ماہ بعد اپنی رپورٹ جمع کروائی تھی۔
اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کی تیار کردہ تہلکہ خیز رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کیے، فنڈز کو کم دکھایا اور درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپائے۔
رپورٹ کے مطابق پارٹی نے مالی سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان چار سال کی مدت میں 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم کم ظاہر کی، سال کے حساب سے تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم کم رپورٹ کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ‘پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس پر اس مدت کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی رائے کے جائزے میں رپورٹنگ کے اصولوں اور معیارات سے کسی انحراف کی نشاندہی نہیں ہوئی’۔
یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان ہے، جسے پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کرایا گیا تھا۔
رپورٹ میں پی ٹی آئی کے چار ملازمین کو ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دینے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن کہا گیا ہے کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر تھا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی مکمل جانچ پڑتال کے لیے اسکروٹنی کمیٹی مارچ 2018 میں تشکیل دی گئی تھی لیکن اسے اپنی رپورٹ ای سی پی کو پیش کرنے میں تقریباً چار سال لگے جو دسمبر 2021 میں جمع کرائی گئی تھی۔
تفصیلات منظر عام پر لانے کا حکم
البتہ اس رپورٹ میں چند دستاویزات کو خفیہ رکھا گیا تھا اور رپورٹ کے ساتھ منظر عام پر نہیں لایا گیا تھا جس کے بعد 19جنوری 2022 کو الیکشن کمیشن نے تمام خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔
14اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مقدمے کا فیصلہ ایک مہینے میں کرنے کا حکم دے دیا تھا جسے تحریک انصاف نے چیلج کردیا تھا اور ان کی انٹراکورٹ اپیل پر 30 روز میں فیصلہ کرنے کے عدالتی حکم کو معطل کردیا گیا تھا۔15 جون کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے پی ٹی آئی کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے عملے کو کیس فارن فنڈنگ کے بجائے ممنوعہ فنڈنگ لکھنے کی ہدایت کردی تھی۔