8 افسران کی دستیابی کے باوجود پنجاب پولیس کے 6 محکمے سربراہ کے بغیر کام پر مجبور

صوبہ پنجاب میں 8 ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) رینک کے پولیس افسران اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) اسلام آباد تعیناتی کے منتظر ہونے کے باوجود پنجاب حکومت 6 پولیس محکموں کے سربراہان کی تعیناتی سے قاصر ہے۔

رپورٹ کے مطابق تعیناتی کے منتظر افسران میں ڈی آئی جی احسن یونس، خرم علی شاہ، مرزا فاران بیگ، وقاص نذیر، کاشف مشتاق کانجو، فیصل راجا، معین مسعود اور طارق چوہان شامل ہیں۔

ایک پولیس افسر نے کہا کہ 20ویں گریڈ میں خدمات انجام دینے والے ان افسران میں سے کچھ پولیس افسران کے پاس شاندار تجربہ اور ان کا کیریئر بہترین ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی بھی خالی جگہوں پر تعیناتی کے لیے نئے وزیر اعلیٰ کی توجہ کے منتظر ہیں تاکہ محکمے کو احسن طریقے سے چلایا جا سکے۔

دوسری جانب سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ افسران کے تقرر میں تاخیر کی وجہ سے سرکاری کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ پولیس کے چھ محکمے سربراہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔

ٹریفک پولیس کا محکمہ بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے کیونکہ یہ ڈرائیونگ لائسنس کے معاملات کے علاوہ ٹریفک مینجمنٹ کے مسائل سے بھی نمٹتا ہے۔

محکمہ ٹریفک کو نگرانی کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے اور یہ عہدہ 19 مئی کو ڈی آئی جی شارق جمال کے تبادلے کے بعد سے خالی پڑا ہے۔

پولیس عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ شارق جمال گریڈ 20 کے سات ‘ناپسندیدہ’ پولیس افسران میں شامل تھے جن کی خدمات پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن (ای ڈی) کو واپس کر دی گئی تھیں۔

ڈی آئی جی رینک کے ان پولیس افسران کے تبادلوں کے بعد محکمہ پولیس کی دیگر اسامیاں بھی خالی ہو گئی ہیں جن میں ڈی آئی جی لیگل پنجاب، ڈی آئی جی آپریشنز، ڈی آئی جی لاجسٹکس، ڈی آئی جی پنجاب ہائی وے اینڈ پٹرول (پی ایچ پی)، ڈی آئی جی ٹیکنیکل پروکیورمنٹ کے علاوہ ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب شامل ہیں۔

پولیس افسر ماخذ سرکاری اسائنمنٹس کی نوعیت کی وجہ سے زیر التوا پوسٹوں کو اہم قرار دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنیکل پروکیورمنٹ اور لاجسٹکس کے محکموں کو ملازمتوں کی اہمیت کی وجہ سے معاملات چلانے کے لیے فوری طور پر سربراہان کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی طرح ڈی آئی جی لیگل کی سروس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ سیکڑوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی دیگر زیر التوا درخواستوں پر صوبے بھر سے محکمے کو رائے درکار ہوتی ہے۔

تاہم صوبے میں ڈی آئی جی آپریشنز کی جگہ بھی خاص طور پر موجودہ امن و امان کے مسائل کے تناظر میں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔پی ٹی آئی کے حالیہ لانگ مارچ کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز نے پنجاب حکومت اور صوبائی پولیس افسران کے درمیان مفید معلومات کے تبادلے اور احکامات پر عمل درآمد کے لیے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور یہ عہدہ بھی 20 مئی کو ڈی آئی جی کامران عادل کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے تبادلے کے بعد خالی ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں