سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے ملک میں کروڑوں درخت لگانے سے متعلق منصوبے ’بلین ٹری سونامی‘ کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

منگل کے روز سپریم کورٹ میں دریاؤں اور نہروں کے کنارے درخت لگانے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

بلین ٹری سونامی کا تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی کو طلب کیا۔  چیف جسٹس نے ریمارکس کہا  ’کہیں پر کوئی درخت نہیں لگایا گیا، بلین ٹری سونامی پروگرام کو کون چلا رہا ہے‘۔

ڈی جی ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ بلین ٹری سونامی پروگرام وزارت موسمیاتی تبدیلی کے پاس ہے۔

دوران سماعت سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت جھیلوں اور شاہراہوں کے اطراف بھی درخت لگائے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بلیں ٹری سونامی کے بارے میں ہمیں بتایا جائے۔ ’اسلام آباد میں کشمیر ہائی وے اور ایکسپرس ہائی پر کوئی ڈھنگ کا درخت نہیں، بغیر ترتیب کے اور ٹیڑھے درخت لگے ہوئے ہیں۔‘

عدالت عظمیٰ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ دنیا میں کتنے خوبصورت پودے سڑکوں پر لگائے گئے ہیں۔ ’ہمارے ملک میں سڑکوں کے کنارے جنگل بنا دیا جاتا ہے۔‘

اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ نئی گج ڈیم کا کیا بنا؟ ’سندھ حکومت کی جانب سے درخت لگانے اور نئی گج ڈیم سے متعلق کوئی رپورٹ جمع نہیں ہوئی۔‘ جس پر سیکرٹری محکمہ جنگلات سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے تفصیلی رپورٹ آج جمع کرا دی ہے۔

اس موقع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے آپ کا چہرہ دیکھنے کے لیے نہیں بلایا تھا، دو ماہ گزر گئے لیکن کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات اور طرح چلتے ہیں۔‘

سیکرٹری جنگلات سندھ نے عدالت کو بتایا کہ دریاؤں اور نہروں کے کنارے تین لاکھ 82 ہزار درخت لگائے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیکریٹری جنگلات سندھ سمیت جو عدالت نہیں آئے ہیں سب کو توہین عدالت نوٹس جاری کرتے ہیں۔ پرائمری سکول کے بچوں کی طرح بغیر تیاری کے آجاتے ہیں۔ سیکرٹری جنگلات اور ایری گیشن سندھ کے لوگ جیل جائیں گے اور نوکری سے بھی جائیں گے۔ توہین عدالت میں وکیل کو لاکھوں روپے دینا پڑیں گے ساری جمع پونجی ختم ہو جائے گی۔‘

سیکرٹری جنگلات سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ آج معافی دے دیں جلد رپورٹ جمع کرائیں گے۔ جس پر عدالت نے سیکرٹری جنگلات اور ایری گیشن سے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں درخت لگانے سے متعلق تفصیل نہیں دی گئی۔ ڈی جی ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ بنی گالہ سمیت مختلف جگہوں پر درخت لگائے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بنی گالہ میں اپنے گھر میں درخت لگائے گئے ہوں گے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ لاکھ درخت کہاں لگائے گئے کوئی تفصیل نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ایڈوکیٹ جنرل صاحب آپ نے اسلام آباد میں نااہل سٹاف رکھا ہوا ہے‘۔

عدالتی بینچ کا حصہ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 2018 سے اب تک دیمک زدہ درختوں کو کیمیکل سے ٹھیک کرنے کا کام نہیں کیا گیا۔ ڈی جی ماحولیات اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ’ہمیں ایم سی آئی کی جانب سے فنڈ نہیں مل رہا‘۔

دوران سماعت پنجاب کی رپورٹ سے متعلق ریمارکس میں عدالت کا کہنا تھا کہ ’پنجاب حکومت کی رپورٹ بھی آج جمع ہورہی ہے اب کیا فائدہ‘۔ سیکرٹری جنگلات پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ’پنجاب میں نہروں کے کنارے 25 ہزار کنال پر درخت لگا رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی تنبیہہ کی جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ ’تفصیلی رپورٹ جمع کرا رہے ہیں‘۔

خیبرپختونخوا میں درختوں کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا ’کے پی میں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں، کمراٹ کا چکر لگایا وہاں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ناران کاغان تو کچرا بن گیا ہے وہاں کوئی درخت نہیں۔ معذرت کے ساتھ کے پی کے محکمہ جنگلات کا سارا عملہ چور ہے۔ نتھیا گلی، مالم جبہ اور مری سمیت کہیں درخت نہیں۔‘

سیکرٹری جنگلات خیبرپختونخوا سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کو کس قسم کا ہیلی کاپٹر دیں جس سے آپ درختوں کو دیکھ سکیں۔  کے پی کا بلین ٹری سونامی کہاں ہے؟ سیکرٹری صاحب زندگی چیلنج کے بغیر کچھ نہیں۔‘

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ کے پی میں کل سات اعشاریہ تین ملین درخت لگائے ہیں۔ 39 ملین درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں ان دنوں درخت نہیں لگ سکتے۔ چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ّآپ نے بلوچستان میں درخت لگانے ہی نہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ مردار کے پہاڑوں پر درخت نہیں لگائے جا سکتے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ درخت ہر جگہ لگ سکتے ہیں اگر ان کا خیال رکھا جائے۔

کیس کی سماعت میں وقفے کے بعد جب کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلین ٹری سونامی کا بتائیں۔

سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ 430 ملین درخت ملک بھر میں لگائے جا چکے ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ ہمیں بتائیں یہ 430 ملین درخت کہاں لگے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی عدالت نے بلین ٹری سونامی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وزرات موسمیاتی تبدیلی بلین ٹری کے اخراجات کے بارے میں رپورٹ جمع کرائے۔ درخت کہاں لگے، کون تصدیق کرتا ہے۔ تمام تفصیلات دی جائیں۔ عدالت نے بلین ٹری سونامی کی سیٹیلائٹ تصویریں بھی فراہم کرنے کاحکم دے دیا

اپنا تبصرہ بھیجیں