سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے سے متعلق ریفرنس کی سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے آبزرویشن دی کہ آپ منحرف رکن پر بہت سنگین سزا کا تقاضا کر رہے ہیں، تاحیات نا اہلی کے تقاضے الگ ہیں منحرف رکن پر تاحیات نا اہلی جیسی سنگین اور سخت اصول کا اطلاق کیسے کرتے ہیں، 5سال تک نااہل قرار دینے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کر دیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
گزشتہ روز عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی ایک گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کریں آج سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ سے کوئی سوالات نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ کمالیہ میں وزیر اعظم کی تقریر کا حوالا دیا گیا تو میں نے وزیراعظم سے اس تقریر کے بارے میں بات کی، میں وزیراعظم کا بیان عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ کمالیہ تقریر میں 1997 سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں بات کی گئی تھی، عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہاؤس حملے میں ملوث ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں، متعلقہ مجسٹریٹ سے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں، پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان گرفتار کیے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سندھ ہاؤس حملہ کیس کی رپورٹ کل دوبارہ جمع کروائی جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کی ناہلی پانچ سال یا تاحیات ہوسکتی ہے، منحرف رکن کی نااہلی باقی رہ جانے والے اسمبلی مدت تک بھی ہو سکتی ہے، منحرف رکن نیوٹرل ہو کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے تو اس کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نااہلی تاحیات ہے، مس کنڈکٹ پر 5 سال کی نااہلی ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر کے نااہلی کے مدعت کے تعین کی وجوہات بتائے۔
اٹارنی جنرل نے منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ پہلا یہ کہ منحرف رکن کو کوئی نتائج نہ بھگتنا پڑیں، دوسرا منحرف رکن باقی رہ جانے والی اسمبلی مدت تک نا اہل ہوسکتا ہے، تیسرا منحرف رکن 5 سال کے لیے نااہل ہوسکتا ہے اور چوتھا منحرف رکن تاحیات نا اہل ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کو آئندہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے، چوری کو اچھائی نہیں قرار دیا جا سکتا، پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں اسمبلی کی مدت کا ذکر ہے اراکین کا نہیں، اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک کی نااہلی سے آرٹیکل 63 اے کا مقصد پورا نہیں ہوگا بلکہ اس کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہو گا، سوال صرف یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہاختلاف تو ججز فیصلوں میں بھی کرتے ہیں، اختلاف رائے کا مطلب انحراف کرنا نہیں ہوتا، صرف 4 مواقع پر پارٹی فیصلے سے انحراف سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، رضا ربانی نے فوجی عدالتوں کے معاملے پر اختلاف رائے کیا لیکن انحراف نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے، نااہلی کا نہیں، جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہو گئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اختلاف کرنے اور منحرف ہونے میں کیا فرق ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اختلاف تو بہت خوبصورت چیز ہے، منی بل میں رکن اختلاف کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ منحرف رکن کےخلاف کارروائی کے لیے ڈیکلریشن ضروری ہے، کیا یہ جانچہ نہیں جائے گا کہ رکن کے خلاف ڈکلئیریشن کیا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے میں اٹھائے گئے سوال بڑی فکری بحث ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرسکتا ہے، پارلیمنٹ کے قانون بنانے تک منحرف رکن کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر تاحیات نا اہلی کا اصول سپریم کورٹ نے طے کیا ہے، منحرف رکن پر تاحیات نااہلی کا فیصلہ دکھا دیں، آپ منحرف رکن پر بہت سنگین سزا کا تقاضا کر رہے ہیں، تاحیات نا اہلی کے تقاضے الگ ہیں منحرف رکن پر تاحیات نا اہلی جیسی سنگین اور سخت اصول کا اطلاق کیسے کرتے ہیں، 5سال تک نااہل قرار پانے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کر دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈیکلریشن جاری کرتا ہے، الیکشن کمیشن کے ذریعے تعین کرنے کا فورم کیوں رکھا گیا ہے، بری کرنا زیادہ بڑا جرم نہیں لیکن بے گناہ کو باقیوں کے ساتھ بلی چڑھا دینا زیادہ سنگین جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ سارے چور نہیں ہوں گے، ایماندار بھی ہوں گے، ڈی سیٹ کرنا کیا بڑی سزا نہیں ہے، بلوچستان میں لوگ انتخابات کے دوران قتل ہوتے ہیں، ایماندار شخص کو آئین نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا آئینی حق ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ایماندار شخص پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کی بنیاد پر تاحیات نا اہلی کی تلوار لٹکانا چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین بنانے والوں کے لیے ڈی سیٹ ہونا بہت بڑی بات ہے، چوری ثابت کرنے کے لیےطریقہ کار کو اپنانا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر کونسا ٹرائل ہوتا ہے، منحرف رکن کے پاس الیکشن کمیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک فورمز موجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے اراکین منحرف ہو جاتے ہیں، اراکین منحرف کیوں ہوتے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ فورم اس سوال کے جواب کے لیے نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ جج صاحب کو پہلے بات مکمل کرنے دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ حکومت ہم سے یہ کام کیوں کرانا چاہتی ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں، آرٹیکل 63 پی میں وقتی نااہلی کا ذکر ہے، جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے۔، پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر 5 سال نااہلی کا قانون بنائے تو کالعدم ہو گا؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق اور نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ شوکاز نوٹس دے کر رکن اسمبلی کا مؤقف لینے کا پابند ہے، 100 گنہگار چھوڑنا برا نہیں، ایک بے گناہ کو سزا دینا برا ہے، پارٹی سے انحراف کرنے والے 100 چور ہوں گیے لیکن ایک تو ایماندار ہو گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ دوبارہ کسی کو الیکشن لڑنے کا کہنا بھی معمولی سزا نہیں، ایماندار آدمی کو پارٹی پالیسی کے خلاف رائے دینے پر تلوار کیوں لٹکا رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایماندار آدمی انحراف کرنے سے پہلے مستعفی کیوں نہیں ہوتا؟
جسٹس جمال خان نے مزید کہا کہ کسی کو نشست سے مستعفی ہونے پر مجبور نہیں جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، 15 سے 20 اراکین ہیں جو کبھی قوانین نہیں بننے دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ مقننہ نہیں ہے، سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ ہم آئین بنانے والوں کی نیت کو جانچ رہے ہیں؟ کیا ہم آئین بنانے والوں کی نیت کو جانچ سکتے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب اچھے لوگ صرف حکومت میں ہی ہیں میں نے یہ تاثر نہیں دیا، اپوزیشن میں بھی اچھے لوگ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اثاثے چھپانا ووٹرز کو دھوکہ دینے سے زیادہ سنگین جرم نہیں، ایک گاڑی ظاہر نہ کرنے پر تاحیات نااہلی ہوجاتی ہے، ووٹرز انتحابی نشان پر ووٹ ڈالتے ہیں نام نہیں پڑھتے، ووٹرز کو دھوکا سسٹم کیساتھ دھوکا ہوتا ہے، عدالت کسی بینکر کو 100 روپے کی چوری بھی نہیں کرنے دیتی، جھوٹے بیان حلفی پر بھی کوئی ٹرائل نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ صفائی کا موقع تو بیان حلفی دینے والے کو ملتا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں صفائی کا موقع اور اپیل کا حق ہے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ آپ 3 دن سے سخت قانون بنوانے کی کوشش کررہے ہیں، سزا موت سے زیادہ سخت سزا نہیں ہوتی لیکن پھر بھی لوگ قتل کرتے ہیں، لوگ انحراف کیوں کرتے ہیں کونسی طاقتیں انحراف کرواتی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انحراف کون اور کیوں کرواتا ہے۔یہ عدالتی فورم کے سوال نہیں، جس کا ضمیر جاگے وہ میریٹ میں پیسے نہیں گن رہا ہوتا، منحرف اراکین اور انحراف کرانے والے کبھی سخت قانون نہیں بننے دیں گے، عدالتی رائے کا اطلاق تمام منحرف اراکین پر ہو گا، ایسا ممکن نہیں ایک جماعت کے منحرف اراکین اچھے اور دوسری کے برے ہوں، آرٹیکل 63 اے کو دیگر آرٹیکلز سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا، عدالت اس حوالے سے فیصلہ دے چکی ہے، کیا پورے ںظام کو 15، 20 کوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت کا کام قانون سازی نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ دے کر بھی عدالت نے قانون سازی نہیں کی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا خیال ہے آپ کے دلائل کا وقت پورا ہو چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کچھ وقت مزید لوں گا تاکہ دلائل مکمل کر سکوں۔
’آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے، نااہلی کا نہیں‘
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے امیدواروں سے بیان حلفی حلفی مانگنے کا فیصلہ فریقین کی رضامندی سے دیا تھا، عدالت قانون ساز نہیں، صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہے، آرٹیکل 63 میں رکنیت ختم ہونے کا ذکر ہے نا اہلی کا نہیں، رکنیت ختم ہونا آئین کی زبان کی قریب ترین تشریح ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کی مدت کا بھی ذکر نہیں، جو بھی تشریح عدالت کرے گی اس کے الفاظ 63 اے میں نہیں لکھے ہوئے، عدالت نے انتخابی نظام کی شفافیت کیلئے بیان حلفی دینے کا حکم دیا، پارلیمنٹ نے دوہری شہریت کے بیان حلفی کو قانون سے نکال دیا تھا، منحرف اراکین بے ایمانی کرر ہے ہیں۔
اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ آپ اسے بے ایمانی کیوں کہہ رہے ہیں، کسی کا اصولی موقف بھی ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک کشتی کو ڈبو کر دوسری میں جانا چاہتے ہیں، اگر اصولی موقف ہے تو استعفیٰ دے دیں۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ داراصل وہ کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے، کیا کوئی اپنی مرضی سے سیاسی جماعت تبدیل نہیں کرسکتا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم سے رشتہ توڑکر کسی سے بھی جوڑ لیں، ایسا ممکن نہیں کہ مجھ سے بھی رشتہ ہو اور چپکے سے کسی اور سے بھی مراسم ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی کا ممبر کے ساتھ رشتہ نشست کا ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت کا اراکین سے رشتہ اعتماد کا ہے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے پارٹی انحراف پر ڈی سیٹ سزا ہو گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہے انحراف کے بعد دوبارہ الیکشن لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آئین سازوں نے جہاں مناسب سمجھا نااہلی لکھ دی، آرٹیکل 63 اے میں آئین سازوں نے نااہلی کا نہیں، ڈی سیٹ لکھا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کی پیروی نہ کرنے پر نااہل ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے تاحیات نااہلی اور نااہلی نہ ہونے میں توازن کرنا ہے، کیا کوئی بچوں کو کہہ سکتا ہے تمہارے باپ نے پارٹی سے انحراف کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینٹ الیکشن صدارتی ریفرنس کے فیصلے کیوجہ سے آئیندہ سینٹ الیکشن میں ووٹ قابل شناخت ہو گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس معاملہ پر الیکشن کمیشن نے کچھ کیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے بتایا ہے کہ ائیندہ سینٹ الیکشن عدالتی احکامات کے مطابق ہو گا، کاش کوئی ایک منحرف رکن استعفی دیتا، کیوں کوئی اتنا رسک لے رہا ہے کہ دوبارہ الیکشن لڑنے کیلئے پیسہ لگائے، کیا بہت زیادہ پیسہ کما لیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا ایک باپ اپنے بچوں کو فخر سے کہہ سکتا ہے کہ مجھے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا گیا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم نے توازن قائم کرنا ہے، ہم نظام کی روانی اور عوام کیلئے فیصلہ کریں گے، وہ فیصلہ کریں گے جو عوام کے حق میں ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے یقین ہے اگلا سینٹ الیکشن ٹریس ایبل بیلٹ پر ہوگا۔
چیف جسٹس نے کل ساڑھے گیارہ تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات اور جمعے کو کیس نہیں سنیں گے، سماعت پیر کو ہوگی۔
پس منظر
یاد رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا گیا تھا، ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سامنے مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے گئے ہیں:
آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:
i) ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔
ii) وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟
کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟
موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے گئے ریفرنس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔