وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اس ملک کی جمہوری جماعتوں کا اس وقت ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں فل کورٹ بینچ چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ 3 شخص اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں۔
اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف 3 شخص یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ ملک جمہوری نظام کے تحت چلے گا، الیکٹڈ نظام کے مطابق چلے گا یا سلیکٹڈ نظام کے مطابق چلے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ 3 شخص 1973 کے آئین پاکستان کو یک جنبش قلم تبدیل کردیں اور ہمیں اس کے لیے 30 سال جدوجہد کرنی پڑے، پھر قربانیاں دینی پڑھتی ہیں، قوم کو لاشیں اٹھانا پڑھتی ہیں، ہمارے کارکنوں کو تختہ دار پر چڑھنا پڑھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا آئین پاکستان میں کیا لکھا ہے کہ اس بات کا فیصلہ یہ 3 افراد کریں گے یا ملک کے عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتیں کریں گی، ہم ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو جمہوری طریقے سے چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ کچھ قوتوں کو، کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ پاکستان جمہوریت کی سمت کی جانب بڑھتا جارہا ہے، ہضم نہیں ہو رہا کہ ون یونٹ نظام بنانے کی 70 سالہ کوشش ناکام ہو رہی ہے، یہ بات برداشت نہیں ہو رہی کہ پاکستان کے عوام خود اپنے فیصلے کر رہے ہیں۔
‘یہ نہیں ہوسکتا عدالت عمران خان کے دباؤ میں آئین تبدیل کرے’
بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان نے 4 سال کے دوران اتنا قرض لیا جتنا اس سے قبل پورے 70 سال میں لیا گیا تھا، ملکی معیشت کو تباہ کردیا، ہم نے جو آئینی حقوق صوبوں کو دیے تھے، ان کو سلب کرنے کی کوشش کی، وہ آمر بن کر تمام اداروں کو اپنا ٹائیگر فورس بنا کر ملک پر راج کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوری جدوجہد کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک دن کے لیے بھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا، مریم نواز، فریال تالپور کو جیل میں ڈالا گیا، آصف زرداری کو جیل میں ادویات سے محروم رکھا گیا تو اس وقت یہی عدالتیں ہمارے کیسز نہیں سن رہی تھیں، پھر جب ہماری جدوجہد کے باعث ادارے اپنے آئینی کردار پر مجبور ہوئے تو صرف 3 ماہ میں کچھ لوگ، کچھ قوتیں، کچھ سیاسی جماعتیں اور سازشی افراد عمران خان کو سامنے رکھ کر ملک میں ایک مہم چلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ چلائی جانے والی مہم اس ملک کی معاشی ترقی اور جمہوی سفر کے خلاف سازش ہے، ہم نے ماضی میں کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی اور ہم آج بھی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے غیر متنازع رہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اداروں کے جمہوری اور آئینی طریقہ کار ہو، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے جمہوریت، اپنے اداروں، خاص طور پر عدلیہ کو متنازع ہونے سے بچانا ہے، اس کی عزت و وقار کو بچانا ہے تو پھر ہمارے معزز جج صاحبان کو چاہیے کہ وہ فل کورٹ تشکیل دینے کی تمام سیاسی جماعتوں کی درخواست کو منظور کریں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے کیس کا فیصلہ فل کورٹ سنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ عدلیہ اپنے ادارے کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دے گی، سپریم کورٹ کے تمام ججز جب فیصلہ کریں گے تو ان کا فیصلہ ہر پاکستانی کو قبول کرنا ہوگا، اگر صرف یہ 3 ججز بیٹھ کر فیصلہ سنائیں گے تو پھر جو سیاسی صورتحال اس ملک میں بنے گی اس کو سنبھالنا ہمارے بس کی بات نہیں ہوگی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ عدالت عمران خان کے دباؤ میں آکر آئین کو تبدیل کرے، ہم عدالت کے اس فیصلے کے خلاف الیکشن لڑیں جس پر ہمارے اعتراضات تھے اور ہمارے جیتنے کے بعد عدالتیں راتوں رات ایک بار پھر ہمارا آئین تبدیل کرنے کی کوشش کریں، ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز یہ اہم کیس سنیں، پھر جو بھی فیصلہ ہوگا وہ آئین کے مطابق ہوگا اور ہم سب اس کو تسلیم کریں گے۔
پہلے سے پتا ہوتا ہےکونسا بینچ بنے گا، فیصلہ کیا ہوگا، مریم نواز
اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی اہم پریس کانفرنس کے آغاز پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ خلفائے راشدین کا قول ہے کہ کفر کی بنیاد پر ریاست کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کے لیے آرہی تھی تو بہت سے لوگوں کے پیغامات آئے کہ آپ کی اپیل زیر التوا ہے، آپ پریس کانفرنس نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں، 75 سال تاریخ میں نہیں جانا چاہتی، حالیہ چند برسوں کے کچھ واقعات کا حوالہ دینا چاہتی ہوں جن کی تفصیلات دیکھ کر رونگٹے کھڑے کردینی والی ایک داستان سامنے آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی سے بھی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن تسلسل کے ساتھ غلط فیصلے ہونا، فیصلے بانچھ نہیں ہوتے، ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، کچھ فیصلوں کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی دہائیوں میں ان کے اثرات مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے کی توہین کبھی بھی اس کے باہر سے نہیں ہوتی، ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، عدلیہ کی توہین کوئی شخص نہیں، اس کے متنازع فیصلوں سے ہوتی ہے۔
‘پارٹی سربراہ دیکھ کر آئین کی تشریح، فیصلے بدل جاتے ہیں’
ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں عدلیہ کی تعریف و توصیف میں لمبا چوڑا مضمون لکھ سکتی ہوں لیکن صرف ایک غلط فیصلہ اس پورے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا اور اسی طرح اگر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اس پر کتنی بھی تنقید کی جائے، وہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔
مریم نواز نے کہا کہ گزشتہ دنوں جب حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو پی ٹی آئی اس انتخاب کے خلاف سپریم کورٹ گئی، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی دیواریں پھلانگی گئیں، قوم نے دیکھا کہ چھٹی کے دن رات کے اوقات میں عدالت عظمیٰ کی رجسٹری کھولی گئی، رجسٹرار گھر سے بھاگا بھاگا آیا اور درخواست طلب کی تو پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ پٹیشن ابھی تیار نہیں ہے جس پر رجسٹرار نے کہا کہ ہم بیٹھیں ہیں، آپ پٹیشن تیار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا اس طرح کبھی اس سے قبل کسی مقدمے میں ہوا؟ انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کی پٹیشنز جاتی ہیں تو انتطار میں ہی ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی جاتیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کونسا بینچ بنے گا اور جب بینچ بنتا ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، یہ ہے اس وقت ہمارے ملک میں انصاف کی حقیقت۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے الیکشن میں 6 ووٹ مسترد ہوئے تھے، جب سپریم کورٹ گئے تو کہا گیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ دی کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی مرضی کے خلاف جن اراکین نے ووٹ دیے ہیں وہ شمار نہیں کیے جائیں گے تو سپریم کورٹ نے بلاکر ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جبکہ وہ بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے فیصلہ ایک وہ بھی ہے کہ جب عدالت نے کہا کہ آئین کو توڑا گیا ہے لیکن پھر بھی قاسم سوری کو نہیں بلایا گیا، قاسم سوری کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، ان کے جعلی ووٹ ثابت ہوچکے ہیں لیکن ڈھائی سال سے ان کو حکم امتناع ملا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین شکنی کیس میں صدر مملکت اور قاسم سوری ملوث ہیں لیکن انہیں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف اکثر عدالتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔
نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے پر 25 اراکین کو ڈی سیٹ کیا گیا اور کہا گیا کہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے جائیں گے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر 95 فیصد قانونی ماہرین نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین پاکستان کو ری رائٹ کرنے کے مترارف ہے، عدالت نے اپنے اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کے 25 ارکان عمران خان کی جھولی میں پھینک دے اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان کو بڑھانا اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو کم کرنا یہ کہاں کا انصاف ہے، پارٹی کو دیکھ کر، پارٹی کے سربراہ کو دیکھ کر آئین کی تشریح بدل جاتی ہے، پارٹی سربراہ کی تشریح بدل جاتی ہے، چند روز قبل کیے گئے اپنے فیصلے ہی بدل جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ نواز شریف ہو تو پاناما پیپرز فیصلے میں ان سے پارٹی کی صدارت یہ کہہ کر لے لی گئی کہ پارٹی سربراہ کا اس پر اثر و رسوخ ہوتا ہے، یہ کہہ کر ان سے پارٹی کی صدارت لے لی گئی، جب چوہدری شجاعت بطور صدر کوئی حکم دیتے ہیں تو اس پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں جبکہ عمران خان جب کوئی ہدایات دیتے ہیں تو وہ حکم معتبر مانا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت جب حکم دیتے ہیں تو پارلیمانی پارٹی اہم ہوجاتی ہے اور جب عمران خان حکم دیتے ہیں تو پارٹی سربراہ کی تعریف بھی بدل جاتی ہے، آئین کی تشریح اور آئین کا حلیہ بھی بدل جاتا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ انصاف کا ترازو کو ٹھیک کرلیں، جب انصاف کا ترازو ٹھیک ہوگا تو پاکستان بھی خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرسٹی وزیر اعلیٰ، بلیک لا ڈکشنری جیسے منفرد خیالات کہاں سے آتے ہیں، کہاں کبھی سنا کہ کوئی ٹرسٹی وزیر اعلیٰ ہو، جب سے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں اس وقت سے انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا، انہیں کابینہ نہیں بنانے دی گئی، کبھی وہ پارلیمنٹ جاتے ہیں اور کبھی عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔
‘میچ فکسنگ کی طرح بینچ فکسنگ بھی جرم ہے’
مریم نواز نے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں، جب 4 سال کے دوران عمران خان ملکی معیشت کو تباہ کر رہا تھا کیا اس دوران کسی نے کوئی بیان معشیت کی تباہی سے متعلق سنا، اگر معیشت کا موازنہ کرنا ہے تو پھر اس وقت سے موازنہ ہوگا جب آپ نے نواز شریف کو نکالا تھا اور عمران خان حکومت چھوڑ کر گیا اس وقت معیشت کی کیا حالت تھی، جب عمران خان گیا تو اس وقت ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر تھی۔
ان کا کہنا تھا جب عمران خان ملک کی معیشت کو تباہ کر رہا تھا تو اس وقت کسی کو اس کا خیال نہیں آیا، اس کو وقت بھی کھلی آزادی تھی اور آج بھی اس کو کھلی چھوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی کابینہ نے برطانیہ سے ملنے والے 50 ارب روپے خاموشی سے ملک ریاض کو دے دیے، وہ پاکستانی قوم کا پیسا تھا، کہاں ہے اس کی منی ٹریل، اس پر کسی نے ازخود نوٹس لیا۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما کا کہنا تھا کہ معیشت کی تباہی کے سارے تانے بانے بھی عدالت کے فیصلوں سے ملتے ہیں کہ 2017 میں معشیت کے تمام اشارے مثبت تھے اس کو آپ نے غیر مستحکم کیا، جب سے آپ نے نواز شریف کو اقامہ جیسے مذاق پر نکالا، اس وقت سے یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہے، ملک ایسا ہلا کہ اب تک سنبھلنے میں نہیں آرہا۔
انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ کالز پر جے آئی ٹیز بنائی گئیں، نگراں جج لگایا گیا، اس وقت جو مانیٹرنگ جج لگایا گیا تھا وہ جج آج بھی ہم پر نگراں جج لگا ہوا ہے، وہ جج صرف ایک مقدمے کے لیے لگایا گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ وہ ہمارے اوپر تاحیات نگراں جج لگ گیا ہے، ہمارے خلاف بنائے گئے ہر مقدمے میں وہ جج شامل ہوتا ہے، سپریم کورٹ میں اور دیگر اچھی شہرت والے ججز بھی ہیں، ان کو کیوں مقدمات میں شامل نہیں کیا جاتا، ایک یا 2 ججز جو ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کے مخالف رہے ہیں ان کو ہی کیوں ہمارے خلاف کیسز کے بینچ میں بٹھایا جاتا ہے۔
انکاکہنا تھا کہ جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اسی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اس پربھی از خود نوٹس ہونا چاہیے۔
‘سوچیں ملک کدھر جارہا ہے’
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف کیسے کیسے القابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لگائے گئے، دنیا جہاں میں تحقیقات کرائی گئیں لیکن ہمارے خلاف کچھ نہیں ملا، جہاں جرم ہوتا ہے ہمیشہ اس کا ثبوت ہوتا ہے، کچھ نہیں ملا تو آخر میں اقامہ پر چلتا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما کیس سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کے ایک رکن جسٹس ریٹائرڈ آصف سعید کھوسہ نے عمران خان کو کہا کہ سڑکوں پر کیا مارے مارے پھر رہے ہو، میرے پاس پٹیشن لے کر آؤ، میں سنتا ہوِں، نواز شریف کو نکالنا چاہتے ہوں، آؤ، میں تمہاری مدد کرتا ہوں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اسی عدالت نے نواز شریف کو نکالا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پاناما کیس چل رہا تھا کہ تو اشتہاری ملزم عمران خان عدالت میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کیس کی کارروائی دیکھتا تھا، خوش ہوتا تھا کیونکہ اس کو پتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا، کسی عدالت نے اس سے نہیں کہا کہ تم اشتہاری ہو، تم عدالت میں کیا کر رہے ہو۔
مریم نواز نے کہا عمران خان اپنے اس طرز عمل سے ہمارا نہیں بلکہ عدالت کا مذاق اڑا رہا تھا، وہ انصاف اور نطام عدل کا مذاق اڑا رہا تھا، وہ کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ کے اسکواڈ کا مذاق اڑا رہا تھا کہ دیکھو میں اشتہاری ہوں لیکن کسی میں مجھے پکڑنے کی طاقت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا ہمارے رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات بنائے گئے، انہوں نے کوئی توہین عدالت نہیں تھی لیکن وہ آج تک نااہل ہیں، توہین عدالت وہ ہوتی ہے جو برطانیہ میں آئین شکنی سے متعلق فیصلہ سامنے آنے کے بعد کی گئی، ان میں سے کسی کے خلاف توہین عدالت کا کیس نہیں بنایا گیا بلکہ ان کے ہی حق میں فیصلے آرہے ہیں، اگر اسی طرح سے فیصلے ہونے ہیں کہ جو سب سے زیادہ بد معاشی کرے گا، گالی دے گا تو فیصلہ اسی کے حق میں آئے گا، اگر تنقید سے اتنا ڈرتے ہیں تو سوچیں کہ یہ ملک کدھر جارہا ہے۔
مریم نواز کی باتیں قائدین کی متفقہ رائے ہے،مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع پر کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس میں فل بینچ تشکیل دیا جائے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ عدالت سے فیصلے کا حق نہیں چھین رہے، سب کو خود احتسابی کی ضرورت ہے، عوام اور عوامی نمائندوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے مریم نواز کی باتیں تمام قائدین کی متفقہ رائے ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مریم نواز کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس حکومت کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اسے کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ق) کے ووٹ مسترد، حمزہ شہباز دوبارہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب
انہوں نے مزید کہا کہ جب ملکی اداروں کی مرضی کے مطابق حکومت نہیں بنی تو دھاندلی کے ذریعے نیا سیٹ اپ مسلط کیا گیا۔
ان کا کہنا تھاکہ ادارے ریاست کے تحفظ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں لیکن کیا وہ کبھی سوچتے ہیں کہ ان کی مداخلت سے ریاست کمزور ہو رہی ہے۔.
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کو موجودہ بینچ سے انصاف کی امید نہیں ہے، اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس قوم کو اس مقام پر نہ لے جائیں جہاں لوگ اداروں کے خلاف بغاوت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے اور ادارون کو بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے اور جوابدہ ہونا چاہیے۔
ہم ملک کا مستقبل روشن بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومت کے لیے استحکام ضروری ہے، ہم اس بات پر متحد ہیں کہ ہمیں معیشت کو درست کرنا ہے لیکن ہمیں کرنے دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے کوئی مشکلات پیدا نہیں کریں تو یہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ ہمارے لیے مشکلات پیدا نہ کریں، پارلیمنٹ، اداروں اور حکومت کی حمایت ہو گی تو ملک میں استحکام آئے گا۔
‘اداروں کو آئینی دائرہ کار میں کام کرنا چاہیے’
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے خالد مگسی کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کی جانب سے اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کی درخواست کو منظور کیا جانا چاہیے، تمام ادارے اپنا کام کریں گے تو ہی ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے، اگر ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کریں گے تو ملک ٹھیک نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی سمت کے ملک چل رہا ہے، اب تک نقصان ہی اٹھاتے آرہے ہیں، اب بھی نقصان کی جانب ہی جا رہے ہیں۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کا مطالبہ کی فل کورت تشکیل دیا جائے اور امید ہے کہ عدالت عظمیٰ اس مطالبے کو تسلیم کرے گی۔
اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ایم ولی خان نے زور دیا کہ تمام اداروں کو آئین میں بیان کردہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان تصادم کی صورت میں عوام اور جمہوریت کو نقصان پہنچے گا، ہمیں اس صورتحال سے آئین کے مطابق نمٹنا ہوگا۔
ایمل ولی خان نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے فیصلے پر سپریم کورٹ کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے کہا اگر فیصلے ایسے ہی کرنے ہیں تو پارٹی صدر کی ضرورت نہیں ہے، اس فیصلے کے تحت پارلیمانی لیڈر کو تمام اختیارات حاصل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ پارٹی صدر کے پاس تمام بڑے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ پارلیمانی لیڈر پارٹی صدر کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے، پارلیمانی لیڈر کو بھی پارٹی صدر کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں مریم نواز نے اعلان کیا تھا کہ وہ صبح 10 بج کر 30 منٹ پر اہم پریس کانفرس سے خطاب کریں گی۔
مریم نواز نے اپنے پیغام میں بتایا تھا کہ ان کی یہ پریس کانفرنس پاکستان کی ضرورت ہے۔