2021ء صحافيوں اور صحافت کے ليے کيسا رہا؟

رواں سال اپنے کام کی وجہ سے حراست ميں ليے جانے والے صحافيوں کی تعداد بلند ترين رہی۔ مگر مشرق وسطی کے تنازعات کی شدت ميں کمی کے باعث وہاں ہلاک ہونے صحافيوں کی تعداد مقابلتاً کم رہی۔

اس وقت دنيا بھر کے مختلف ملکوں ميں ميڈيا کے پيشے سے وابستہ 488 افراد زير حراست ہيں۔ ميڈيا کی آزادی کے ليے سرگرم اس غير سرکاری تنظيم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے سولہ دسمبر کو جاری کردہ اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں يہ اعداد و شمار جاری کيے۔

اس تنظيم نے پچيس سال قبل اعداد و شمار جمع کرنے شروع کيے اور تب سے لے کر اب تک کسی ایک برس کے دوران يہ گرفتار صحافيوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان افراد کو ان کے کام سے منسک الزامات کے تحت گرفتار کيا گيا۔

زير حراست صحافيوں ميں ریکارڈ ساٹھ خواتين بھی شامل ہيں۔ چين سر فہرست ملک ہے جہاں اس وقت ميڈيا کے پيشے سے وابستہ 127 افراد قيد کاٹ رہے ہيں۔ ہانگ کانگ ميں اس سال متنازعہ سکيورٹی قانون کی منظوری کے بعد وسيع پيمانے پر گرفتارياں عمل ميں آئی تھيں۔

ميانمار ترپن افراد کی گرفتاری کے ساتھ اس فہرست ميں دوسرے نمبر پر ہے۔ ويت نام ميں ميڈيا سے وابستہ تينتاليس افراد، يورپی رياست بيلاروس ميں بتيس اور سعودی عرب ميں اکتيس افراد زير حراست ہيں۔

اس سال مجموعی طور پر چھياليس صحافيوں کی ہلاکت بھی واقع ہوئی۔ تنظيم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ سن 1995 سے ڈيٹا اکھٹا کر رہی ہے اور تب سے اب تک ايک سال ميں ہلاکتوں کی يہ سب سے کم تعداد ہے۔ مشرق وسطی ميں تنازعات کی شدت ميں کمی آئی ہے، جسے ہلاک ہونے والے صحافيوں کی تعداد ميں کمی کی ايک بڑی وجہ قرار ديا جا رہا ہے۔ بالخصوص شام، يمن اور عراق ميں حالات قدرے بہتر ہوئے ہيں۔

‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق سال رواں ميں اب تک ہلاک ہونے والے چھياليس صحافيوں کی پينسٹھ فيصد تعداد کو سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کيا گيا۔ صحافيوں اور صحافت کے ليے سب سے خطرناک ممالک کی فہرست ميں ميکسيکو اور افغانستان نماياں ہيں، وہاں بالترتيب سات اور چھ صحافی ہلاک ہوئے۔ يمن اور بھارت ميں چار چار صحافی مارے گئے۔

‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی رپورٹ کے مطابق پينسٹھ پروفيشنلز کو مختلف مقامات پر يرغمال بھی بنايا گيا، جو سب کے سب مشرق وسطی ميں ہيں۔ شام ميں چواليس، عراق ميں گيارہ اور يمن ميں نو افراد کو يرغمال بنايا گيا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں