یہ وقت ترکی اور ایران کے ساتھ رقابتوں کو سنبھالنے کا ہے

متحدہ عرب امارات خطے میں نئے تصادم سے بچنے کے لیے ایران اور ترکی کے ساتھ جاری رقابتوں کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس خطے کو اب واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین سرد جنگ کے خطرات کے بارے میں بھی تشویش لاحق ہے۔

متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر اب پالیسیوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق خطے میں ایران اور ترکی کے ساتھ طویل عرصے سے جاری رقابتوں کو اب مذاکرات کے ذریعے سلجھانے کا وقت آ گیا ہے تاکہ خطے میں کوئی اور نئی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہونے سے بچا جا سکے۔

ایسے وقت جب کورونا وائرس کی وبا کے بعد متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، سفارتی سطح پر بھی نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

سرد جنگ کے خدشات اور خطرات

انورقرقاش نے دبئی میں تین اکتوبر اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایک طرف خطے سے متعلق امریکا کے جو عزائم ہیں وہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں اور دوسری طرف واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین سرد جنگ کے جو خطرات منڈلا رہے ہیں اس پر بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

خلیجی ممالک کے چین کے ساتھ بہت اچھے اور مضبوط تجارتی روابط ہیں دوسری جانب یہ تمام ممالک امریکا کی عسکری امداد اور ان کے تحفظ کے بھی محتاج رہتے ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی بھی کوششیں جاری ہیں جبکہ افغانستان میں اب طالبان اقتدار میں ہیں۔

انور قرقاش کا کہنا تھا، ”خطے میں امریکا کی موجودگی کے حوالے سے ہم آنے والے دور میں دیکھیں گے کہ واقعی کیا ہوتا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ابھی تک کچھ معلوم ہے، لیکن افغانستان کی صورت حال یقینی طور پر ایک آزمائش ہے، ایمانداری سے کہیں تو یہ ایک بہت پریشان کن امتحان ہو گا۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہمیں اپنے اس علاقے کو بہتر طور پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک خلا پایا جاتا ہے اور جب بھی کوئی خلا ہوتا ہے تو وہاں پریشانی بھی پائی جاتی ہے۔”

متحدہ عرب امارات نے حالیہ مہینوں میں ایران اور ترکی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس کے اثرات بھی محسوس کیے گئے ہیں۔ تاہم ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ اس کے میزائل پروگرام سے مشروط کیے بغیر یہ معاہدہ بے معنی ہے۔

انور قرقاش کا کہنا تھا، ”ترکی نے حالیہ عرصے میں مصر، اخوان المسلمین اور سعودی عرب اور دیگر کے بارے میں اپنی پالیسیوں کا جو از سر نو جائزہ  لیا ہے، وہ بہت خوش آئند ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے درمیانی راستے تک جانا اور پہنچنا بہت ضروری ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم ترکی سے جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں ان کا رویہ بہت مثبت رہا ہے۔ کیا میں ایران کے بارے میں بہت مثبت ہوں؟ ہاں میں ہوں۔ کیا میں بہت زیادہ مثبت ہوں کہ ایران علاقے سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرے گا؟ اس پر مجھے کہنا ہے کہ میں یہاں زیادہ حقیقت پسند ہوں، لیکن میں یہ شرط کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایران بھی پائے جانے والے خلا اور کشیدگی کے تئیں فکر مند ہے۔”

قرقاش کا کہنا تھا کہ وبائی امراض نے سیاسی ترجیحات کو پیچھے رکھ کر دیگر مقاصد کو سب سے آگے کر دیا ہے اور اب ایک اہم تشویش، امریکا اور چین کے درمیان پھنسنے، کی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ”سر پرمنڈلانے والے سرد جنگ کے خدشات سے ہم سبھی بہت پریشان ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے بری خبر ہے، کیونکہ بین الاقوامی نظام میں انتخاب کا خیال بڑا مشکل ہوتا ہے اور میرے خیال میں یہ سفر آسان نہیں ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں