اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں عالمی ادارے کے مشن کی ایک اور سال کے لیے تجدید کردی لیکن روس نے قرار داد کو طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد نئی حقیقتوں سے لاعلم قرار دیتے ہوئے قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سخت گیر اسلام پسند طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
روس چاہتا تھا کہ 15 رکنی کونسل ‘ڈی فیکٹو حکام’ کا حوالہ دے اور اقوام متحدہ کی ملک میں موجودگی کے لیے ان کی منظوری کی ضرورت ہے، قرارداد 14 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوئی جس میں متعلقہ حکام کا حوالہ دیا گیا تھا اور اس میں میزبان ملک کی رضا مندی کا ذکر نہیں ہے۔
روس کی جانب سے سالانہ ووٹنگ سے گریز اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔
روس کے اقوام متحدہ میں سفیر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ہم نہیں چاہیں گے کہ اقوام متحدہ کا افغانستان میں امداد کا مشن اقوام متحدہ کا مشن امپاسبل بن جائے گا، اصل حکمرانوں کی حمایت مشن کو مؤثر طریقے سے اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی اجازت دے گی۔
ناروے کی اقوام متحدہ کی سفیر مونا جول کا کہنا تھا کہ ناروے کی جانب سے تیار کردہ قرارداد اقوام متحدہ کے مشن کو “اپنے مینڈیٹ کے تمام پہلوؤں پر تمام متعلقہ اداکاروں کے ساتھ مشغول ہونے کا ایک ٹھوس مینڈیٹ” فراہم کرتی ہے، قرارداد کے تحت متعلقہ حکام میں طالبان بھی شامل ہیں۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ لیکن اس قرارداد کا مطلب کسی بھی طرح سے یہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔
اقوام متحدہ کا یہ مشن 20 سال قبل افغانستان میں امن اور استحکام کے حصول کی کوششوں کی حمایت کے لیے اس وقت قائم کیا گیا تھا جب 2001 کے اواخر میں امریکی حمایت یافتہ افغان فورسز نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کرنے پر طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
سلامتی کونسل کی قرارداد میں اس مشن کی ترجیحات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جبکہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آچکے ہیں۔
اس امدادی مشن میں امداد کی فراہمی، انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کے لیے فنڈنگ، انسانی حقوق کا تحفظ اور خواتین کی مساوی شرکت شامل ہے۔
افغانستان کے لیے اگست سے بین الاقوامی ترقیاتی امداد بند ہونے اور افغان مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کیے جانے کے بعد ملک میں انسانی بحران مزید بڑھ گیا ہے اور معیشت تباہی کا شکار ہے۔
طالبان کے بہت سے رہنما امریکا اور اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا شکار ماتحت ہیں۔
طالبان نے خواتین کے حقوق کا احترام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، 1996 سے 2001 تک سخت گیر اسلام پسند گروپ کے دور حکومت میں خواتین کام نہیں کر سکتی تھیں اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد تھی۔