روسی فوج کی طرف سے یوکرائن کے دارالحکومت کییف سمیت کئی شہروں پر کروز میزائلوں اور توپوں سے مربوط حملے کیے جا رہے ہیں جبکہ ماسکو کے دستوں نے ڈیڑھ لاکھ کی آبادی والے یوکرائنی شہر میلیٹوپول پر قبضے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔روسی فوج کے دعووں کے مطابق اس نے آج ہفتہ چھبیس فروری کے روز یوکرائن کے جنوب مغربی شہر میلیٹوپول پر قبضہ کر لیا۔ یوکرائنی حکام نے تاہم اب تک تصدیق نہیں کی کہ پیش قدمی کرتے ہوئے روسی دستوں نے میلیٹوپول پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے کییف سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اگر روسی فوج نے واقعی میلیٹوپول پر قبضہ کر لیا ہے، تو یہ یوکرائنی تنازعے میں ایسی پہلی پیش رفت ہو گی کہ جمعرات چوبیس فروری کے روز یوکرائن میں فوجی مداخلت کے آغاز کے بعد سے یوکرائن کا مقابلتاﹰ کافی زیادہ آبادی والے کوئی شہر ماسکو کے مسلح دستوں کے قبضے میں آ گیا ہو۔
کئی شہروں پر کروز میزائلوں سے حملے
یوکرائنی حکام اب تک تصدیق کر چکے ہیں کہ اس شدید تر ہوتے ہوئے تنازعے میں روسی فوج ملک کے کئی دیگر شہروں پر بھی توپ خانے اور کروز میزائلوں سے حملے شروع کر چکی ہے۔ اس دوران بحیرہ اسود کے کنارے واقع شہر ماریوپول، مشرق میں پولتاوا اور شمال مشرق میں سُومی جیسے شہروں پر بھی کئی کروز میزائل فائر کیے گئے۔
دارالحکومت کییف پر کیے جانے والے میزائل حملوں کے دوران ایک روسی میزائل ایک بڑی رہائشی عمارت پر گرا جبکہ حکومتی ذرائع اور روئٹرز نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کییف ہی میں ایک میزائل شہر کے ایک دوسرے حصے میں اور ایک ایئر پورٹ کے قریب گرا۔ ان حملوں میں ہلاکتوں کے بارے میں حکام نے تاحال کچھ نہیں بتایا۔
صدر زیلنسکی کا ملک کے دفاع کا عزم
مختلف خبر رساں اداروں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ کییف پر حملوں کے دوران شہر کے وسطی اور حکومتی دفاتر والی عمارات والے حصے میں آج فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
دریں اثناء یوکرائن کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کییف شہر کے مضافات میں اپنے دفتر سے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ یوکرائن ‘روسی جارحیت‘ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ صدر زیلنسکی نے اس ویڈیو پیغام میں کہا، ”ہم اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہتھیار چھوڑیں گے نہیں۔ ہم اپنے ملک کا مسلسل دفاع کرتے رہیں گے۔‘‘
‘شہری کییف کے دفاع میں مدد کریں‘
یوکرائنی حکام نے مسلسل شدید تر ہوتی جا رہی لڑائی اور روسی دستوں کی پیش قدمی کے تناظر میں کییف کے عام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی ملکی دارالحکومت کے دفاع میں مدد کریں۔
اسی دوران روسی اور یوکرائنی دونوں حکومتوں نے یہ اشارے بھی دیے ہیں کہ وہ مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ یہ روس کی طرف سے یوکرائن پر فوجی چڑھائی شروع کیے جانے کے بعد سے بظاہر ایسی پہلی امید ہے کہ یہ تنازعہ شاید اب بھی سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکتا ہے۔یوکرائنی فضائیہ کی اعلیٰ کمان کے مطابق کییف سے جنوب مغرب کی طرف واسِلکیف کے مقام پر واقع ایک اہم ایئر بیس کے نزدیک بھی شدید لڑائی جاری ہے۔ اس یوکرائنی ایئر بیس پر روس نے اپنے چھاتہ بردار دستوں کے ذریعے حملہ کیا ہے۔
ہلاکتوں سے متعلق غیر واضح اعداد و شمار
یوکرائن کا کہنا ہے کہ روسی دستوں کی طرف سے چڑھائی کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ روس نے اپنی فوج کو پہنچنے والے جانی نقصان کے بارے میں اب تک مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
جمعرات کو رات گئے یوکرائنی صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ اب تک اس لڑائی میں یوکرائن کے 137 فوجی اور بہت سے عام شہری ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے تھے۔
اس جنگ میں انسانی ہلاکتوں سے متعلق اب تک کے اعداد و شمار اس لیے بہت غیر واضح ہیں کہ مجموعی افراتفری کے عالم میں کسی بھی فریق کی طرف سے اب تک کے کوئی حتمی اور مصدقہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے اور کل جمعے اور آج ہفتے کے روز انسانی ہلاکتوں کی صورت حال بھی اب تک واضح نہیں۔